سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس عرفان سعادت خان شامل ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلیوں پر سماعت کے دوران عدالت نے اٹارنی جنرل سے زیر حراست 103 افراد کی تفصیلات طلب کی تھیں۔
جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ بتائیں کتنے ملزمان کو کتنی سزائیں ہوئی ہیں؟ یہ بھی بتائیں کتنے ملزمان بری ہوئے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ٹرائل مکمل ہو چکا ہے لیکن عدالت نے حتمی فیصلے سے روکا تھا، عدالت نے کہا آپ ہدایات لے لیں۔
سماعت کے دوران خیبرپختونخوا حکومت نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف دائر اپیلیں واپس لینے کی استدعا کردی تھی۔
یاد رہے کہ 22 مارچ کو سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کیخلاف انٹرا کورٹ اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہوگئی تھیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اپیلوں کی سماعت کے لیے نیا 6 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ 20 مارچ کو سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ملٹری ٹرائل کے خلاف اپیلوں کی جلد سماعت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے وکیل ایڈووکیٹ خواجہ احمد حسین کے ذریعے ایک درخواست دائر کی، جس میں استدعا کی گئی کہ اگر اپیل خارج کر دی گئی تو شہریوں کو بلا جواز کئی مہینوں تک فوجی حراست میں رہنا پڑے گا۔
درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ ترجیحی بنیادوں پر 25 مارچ تک کیس کی سماعت کی جائے کیونکہ شہریوں کے مسلسل فوجی حراست میں رہنے سے ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ اُن درخواست گزاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے گزشتہ سال 9 مئی کو پرتشدد مظاہروں کے الزام میں گرفتار کیے گئے شہریوں کے فوجی ٹرائل کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2023 میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا، تھا جس میں 103 شہریوں کے ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔
اس فیصلے کو وفاقی حکومت، وزارت دفاع، پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے انٹراکورٹ اپیلوں کے ذریعے چیلنج کیا تھا، بعدازاں 6 ججوں کے بینچ نے 13 دسمبر 2023 کو یہ فیصلہ 5-1 کی اکثریت سے معطل کر دیا تھا۔
29 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت پر جسٹس سردار طارق مسعود (جو کہ ریٹائر ہو چکے ہیں) نے یہ انٹرا کورٹ اپیل 3 ججوں پر مشتمل کمیٹی کے پاس بھیج دی تھی تاکہ اسے لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جا سکے۔
چیف جسٹس اور 2 سینیئر ججوں پر مشتمل کمیٹی کو سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کے تحت بنچوں کی تشکیل کا کام سونپا گیا تھا۔
معاملہ کمیٹی کو دیتے ہوئے سابق جسٹس (ر) سردار طارق مسعود نے واضح کیا تھا کہ 23 اکتوبر کا حکم نامہ بینچ کی تشکیل تک معطل رہے گا۔