کیپیٹل ڈائری(محمدحسین)صوفیائے کرام کے بارے میں ہمارے ہاں غلط فہمیاں عام ہیں۔بعض علماء روحانیت کو دین اسلام سے خارج قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ دین صرف وہی ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لیکر آئے۔ ان خیالات کا اظہار ممتاز شاعر و دانشور افتخار عارف نے ایوانِ قائد، نظریہ پاکستان کونسل میں میجر جنرل (ر) محمد طاہر کی اسلامی روحانیت اور صوفی ازم کے حوالے سے انگریزی کتاب کی تقریب رونمائی کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کتاب کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے صاحب کتاب محمد طاہر کو خوش نصیب لکھاری قرار دیا اور کہا کہ ‘رومی کا فلسفہ’ جیسی اہم تصنیف بھی آپکے حصے میں آئی۔ اُنہوں نے کہا کہ انگریزی بولنے اور سمجھنے والوں کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ میں نے جنرل محمد طاہر کو بہت پہلے جلال الدین رومی پر گفتگو کرتے ہوئے سنا تھا۔ اب انہوں نے اس کتاب کو انگریزی میں لکھ کر صوفیائے کرام سے عقیدت کا حق ادا کر دیا۔اللہ رب العزت تک پہنچنے کے کئیبراستے ہیں حضرت داتا گنج بخش اپنی کتاب “کشف المعجوب” میں فرماتے ہیں کہ “تصوف اس وقت بھی موجود تھا جب اس کا نام بھی نہیں تھا”۔صاحب صدر نے مزید کہا کہ یہ کتاب اسلامی روحانیت کا ایک بصیرت افروز تعارف ہے۔ آپکی دیگر کتب بھی دینی،روحانی اور فکری موضوعات کا بھر پور احاطہ کرتی ہیں۔ آپ کی کتابیں عام آدمی خصوصاً نئی نسل کیلئے مشعل راہ ثابت ہونگی۔ تقریب کے مہمان خصوصی اور ثقافتی ورثہ کے ماہر عکسی مفتی نے کہا کہ اس کتاب کی بین الاقوامی سطح پر اشاعت ہونی چاہیئے۔کتاب کے پبلشر اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی ڈاکٹر راجہ مظہر حمید یہاں موجود ہیں۔انہیں اتنی اہم کتاب کی اشاعت پرمبارکبادپیشکرتے ہوئے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اس اہم اور مفید کتاب کی ‘ای بک’ بنا کر جاری کریں۔ صوفی فلسفہ پر یہ ایک اہم کتاب ہے۔اسلامی روحانیت کا منبع رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ عکسی مفتی نے مزید کہا کہ اس کتاب نے روحانیت اور تصوف کی تنقید کا مناسب جواب دیا ہے۔ آج نوجوان نسل کو تصوف اور اسلامی روحانیت کے بارے میں بہت سی منفی باتیں بتائی جاتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہےکہ انہیں ایسی کتابوں سے متعارف کرایا جانا چاہیے۔ ہمارے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو بھی یہ کتاب اپنی لائبریریوں میں رکھنی چاہیے تاکہ طلباء اسلامی روحانیت کی حقیقی روح کوسمجھ سکیں’اسلامی روحانیت اور تصوف’ کے عنوان سے اس موضوع پر محمد طاہر کی یہ دوسری کتاب ہے۔ قبل ازیں مولانا رومی اور تصوف کے دیگر موضوعات پر انکی پانچ تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں۔ان کتابوں نے نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک علمی و ادبی حلقوں میں بھی زبردست پذیرائی حاصل کی ہے۔ عکسی مفتی نے موضوع کے اعتبار سےاس کتاب کو ایک تاریخی اضافہ قرار دیا اور کہا کہ مصنف نے بڑی محنت و ریاضت سے چھ سو اسی صفحے کی کتاب لکھی ہےجس کا ہر لفظ موضوع کے ساتھ ذمہ داری کے گہرے احساس اوروابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔ مصنف کےالفاظ میں، قرآن تمام صوفیاء کی تعلیمات کا مرکزی موضوع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان تمام علوم کا منبع ہیں جنہیں قرآن نے ”سراج المنیر” یا چمکتا ہوا چراغ کہا ہے۔ مصنف نے کثرت سے فرید الدین عطار، مولانا رومی اور امام غزالی کاحوالہ دیا ہےجو مصنف کے مطابق عظیم صوفی تھے۔ وہ تزکیہ نفس اور اللہ سے گہرے تعلق اور محبت پر زور دیتے تھے۔ تقریب کی ابتداء میں اپنی کتاب کے حوالے سے گفتگو کا آغاز محمد طاہر نے سورة العصر کی تلاوت سے کیا۔ انسان بے شک خسارے میں ہے۔حافظ اس سلسلے میں کہتے ہیں، میرا دل جیسے خالی ہے، میں تلاش میں ہوں۔ رومی کہتے ہیں، جب میں نے اللہ سے پوچھا، تم کون ہو؟، کہاں ہو؟، میں کون ہوں؟ میرا راستہ کون سا ہے؟میں تم کو دیکھنا چاہتا ہوں۔اسلامی روحانیت کا منبع رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے ہے۔ امام غزالی نے مکاشفات اور معاملات کا ذکر کیا ہے۔کتاب میں چوبیس صوفیائے کرام کاذکر کیا ہے اور آج کی گفتگو کیلئے میں نےغزالی کو منتخب کیا ہے۔آخر میںننظریہ پاکستان کونسل کے چیئر مین میاں محمدجاوید نےتمام مہمانوں کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ تصوف اور روحانیت جیسے اہم موضوع پر آج بھر پور تقریب منعقد ہوئی۔یہ سب افتخارعارف،عکسی مفتی اور میجر جنرل(ر) محمد طاہر کی صحبت کے بغیر ممکن نہ تھا۔احباب کی بڑی تعداد میں شرکت سےحوصلہ افزائی ہوئی۔ہم آئندہ بھی ایسی محافل کا انعقاد کرتے رہیں گے۔تقریب میں نظریہ پاکستان کونسل کے سینئر وائس چیئرمین فیصل زاہد ملک، وائس چیئرمین محمد عبداللہ یوسف، کونسل کے سینئر اراکین کنور محمد دلشاد، مسز نرگس ناصر، ڈاکٹر محمدافضل بابر اور منظور مسیح بھی موجود تھے۔ انکے علاؤہ میجر جنرل (ر) محمد طاہر کے رفقائے کار اور احباب نےاورراولپنڈی اسلام آباد کے ممتاز اہل علم ودانش نےتقریب میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔