اسلام آباد(آئی ایم ایم) سابق امیدوار برائے قومی اسمبلی حلقہ این اے 52 راجہ عبد اللہ دھنیال نے ملک، سیاسی پارٹیوں اور سیاسی شخصیات کے بارے میں77 نقاطی تجاویز حکومت کو پیش کی ہیں،جن میں ملک میں گورننس، قانون سازی، عدالتی، اقتصادی، دہشت گردی اور جنگی بحرانوں کو حل کرنے کے حوالے سے تجاویز شامل ہیں،نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے راجہ عبد اللہ دھنیال کا کہنا تھا کہ اگرحلقے میں غلط کام ہو رہے ہوں اور عوامی نمائندے خاموش ہوں تو اسکا مطلب یہ ہے کہ وہ خود بھی اس میں شامل ہیں،اپنی تجاویز کے بارے میں بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گورننس،پالیسی،وحدانی صدارتی نظام،ایم این اے، ایم پی اے، چیئرمین، وائس چیئرمین وغیرہ کو ہٹانا،وزیر اعظم کو ہٹانا اور صدر کو تمام حقوق دینااور صدر کو قانون سازی پر ویٹو کا اختیار حاصل ہے، یہ ایک یک ایوانی قانون ساز اسمبلی ہے جس میں 260 نائبین ہیں جن کا انتخاب حلقوں سے براہ راست مقبول ووٹ سے ہوتا ہے۔ اور صدر کا انتخاب براہ راست مقبول ووٹوں سے ہوتا ہے،تمام انتظامی ڈویژن ختم کر دئیے جائیں گے صرف یونین کونسل باقی رہ جائے گی، میئر اور ڈپٹی میئر کے تمام حقوق اور اختیارات ان کے حلقے میں آنے والی یونین کونسل کے نائبین کو منتقل ہو جائیں گے اور یونین کونسل کا سربراہ سرکاری ملازم ہو گا،ایک سرکاری ریٹائرڈ شخص کو سرکاری ادارے میں اپنی خدمات دینے کی اجازت نہیں ہے لیکن مسلح افواج، نیم فوجی، ڈاکٹروں اور ریسکیو ملازمین کی خدمات کو جنگ یا شورش کی کسی بھی صورت میں اجازت دی جائے گی،جب سیاسی جماعت منشور دیتی ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ہم معیشت کو بڑھانے کا حل بتائے بغیر یہ کرتے ہیں وغیرہ بڑے خواب دیکھتے ہیں یہ ناممکن ہے کہ وہ پارٹی ووٹ حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بول رہی ہو، اگر معیشت قرضوں پر منحصر ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ میگا پراجیکٹس شروع کریں یا مہنگائی کو کنٹرول کریں۔ یا کم شرح معیشت کے ساتھ وعدے پورے کرنا ناممکن ہے۔اگر آپ کسی ملک کے انفراسٹرکچر اور اس کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس ملک میں خانہ جنگی شروع کر دیں اور اسے فروغ دیں۔اگر آپ کسی ملک کی معیشت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو اس ملک میں دہشت گردی شروع کریں اور اسے فروغ دیں،اگر آپ کسی ملک کے خلاف جنگ آسانی سے جیتنا چاہتے ہیں تو پہلے اس ملک میں خانہ جنگی شروع کریں اور پھر اس پر جنگ کریں۔اسلامی پالیسی کے مطابق پاکستان کے آرٹیکل 227 میں ترمیم کی جانی چاہیے، جس میں کہا گیا ہے “قرآن اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بحیثیت مسلمان ہمارا سپریم قانون ہو گا۔ تمام فیصلے اور سزائیں قرآن و سنت کے مطابق بنایا گیا، زیادہ سے زیادہ کے ساتھ:- عام معاملات کے لیے 15 دن- پیچیدہ معاملات کے لیے 30 دن۔جن معاملات کی قرآن و سنت میں واضح طور پر وضاحت یا خطاب نہیں کیا گیا ہے، ان میں اجماع (اسلامی علماء کا اتفاق) کو ترجیح دی جائے گی۔ کوئی ایسا قانون یا قاعدہ نہیں بنایا جائے گا جو اسلامی قوانین اور اصولوں سے متصادم ہو، اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ان پالیسیوں پر عملدرآمد کرے۔