اسلام آباد(آئی ایم ایم) انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے سماجی رہنماؤں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ایک آزاد، خود مختار، اور موثر قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت کی مضبوط قانونی بنیاد بنانے کے لیے ایک حکومتی بل پارلیمان میں پیش کرے، قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے پرائیویٹ ممبرز قومی کمیشن برائے اقلیت بل 2024 پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مسودہ قانون انسانی حقوق کے قومی اداروں سے متعلق اصولوں سے متصادم ہے، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میںادارہ برائے سماجی انصاف اور پیپلز کمیشن برائے حقوق اقلیت کے زیر اہتماممنعقدہ پریس کانفرنس میں انسانی حقوق کے ماہرین بشمول پیٹر جیکب، ڈاکٹر عبد الحمید نیئر، شفیق چوہدری، نبیلہ فیروز بھٹی اور فاطمہ عاطف نے اپنے خیالات کا اظہار کیا.
ادارہ برائے سماجی انصاف کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب نے کہا کہ گزشتہ برس اقلیتی کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے پیش کیے گیے حکومتی بل پر سول سوسائٹی نے شدید تحفظات کا اظہار کیا جو عجلت میں قومی اسمبلی سے منظور بھی ہوا مگر سینیٹ نے مسودہ قانون میں موجود خامیوں کی وجہ سے اسے مسترد کر دیا تھا، انہوں نے اس بات پر مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا کہ ارکان پارلیمان نے سول سوسائٹی کی کسی بھی تنظیم سے مشورہ نہیں کیا اور ایک بار پھر کمیشن کی کمزور ساخت کے بارے میں انتباہ کو نظر انداز کیا، اس لیے وہ اقلیتوں کے کمیشن کے قیام کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں.
کمیشن کو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ اور خلاف ورزیوں کے سدباب پر توجہ دینی چاہیے، تاہم اس کمیشن کو عبادت گاہوں کے تحفظ، بحالی اور تحفظ سے متعلق کام سونپنا قومی ذمہ داریوں اور مینڈیٹ سے دستبردار ہوگا۔ نیز انسانی حقوق کے قومی ادارہ میں میرٹ پر تعیناتیاں ترجیح ہونی چاہیں،ڈاکٹرعبد الحمید نیئر نےمسودہ قانون میں اسلامی نظریاتی کونسل، وزارت برائےمذہبی امور، متروکہ وقف املاک بورڈ کی مجوزہ نمائندگی کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئےکہا کہ کمیشن کو مذہبی ادارے کے بجائے انسانی حقوق کے ایک آزاد ادارے کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
کیونکہ پاکستان میں انسانی حقوق، حقوق اطفال اور حقوق نسواں سے متعلق کمیشنز میں مذہبی اداروں کی نمائندگی موجود نہیں ہے،بصورت دیگر، یہ مذہبی اداروں کے زیر اثر رہے گااور اس کمیشن کی آزادی کو مجروح کرے گا، نبیلہ فیروز بھٹی نے سپریم کورٹ کی 19 جون2014 کی کمیشن سے متعلق ہدایات کا حوالہ دیا، جس میں اقلیتوں کے حقوق کے عملی حصول کی نگرانی اور پالیسی سفارشات فراہم کرنے کے لیے مینڈیٹ کے ساتھ اقلیتی حقوق کے ادارے کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کو عدالت کی ہدایت پر مکمل عملدرآمد کے لیے ایک بااختیار ادارہ تشکیل دینا چاہیے۔
شفیق چوہدری نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ماضی کے تجربات، گزشتہ اقلیتی کمیشنز کی ناقص کارکردگی اور اُن کو درپیش مسا ئل کو مدِ نظر رکھیں اور قانون سازی کے لیے وسیع مشاورت کرے ، نیز حکومت پاکستان اقلیتوں کے حقوق کو مؤثر طریقے سے تحفظ اور فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ کے پیرس اصولوں کے مطابق قومی کمیشن برائےحقوق اقلیت قائم کرنے کے لیے ایک مسودہ قانون پیش کرے۔ فاطمہ عاطف نے کہا کہ وفاقی حکومت کے اتحادیوں بشمول مسلم لیگ ن، پی پی پی اور ایم کیو ایم نے اپنے 2024 کے انتخابی منشور میں قانون سازی کے ذریعے قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت قائم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں موجود سیاسی جماعتوں پر زور دیا کہ وہ اس وعدے کو پورا کرنے کے لیے مضبوط قانون سازی کے ذریعے اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں لاءیں۔ کیونکہ 1990 سے ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے وفاقی وزارت کے تحت اقلیتی کمیشن کا قیام عمل میں آتا رہالہذا جو خاطرخواہ کارکردگی دکھانے سے قاصر رہا۔