لاہور(آئی ایم ایم)انجینئر ظہور سرور ممبر گورنگ باڈی پاکستان انجینئرنگ کونسل (PEC) نے لاہور پریس کلب میں ہنگامی پریس کانفرنس کی ہےجس میں انہوں نےانجینئرز کی خریدو فروخت کے گھناؤنے دھندے کے بارے میں میں میڈیا کو آگاہ کیا انہوں نے بتایا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایک قانونی ادارہ ہےجو کہ پارلیمنٹ ایکٹ کے تحت 1976 میں وجود میں آیا (PEC) کا کام انجینئرنگ کےشعبے سے منسلک کمیو نٹی کے مسائل کو حل کرنا اور اس شعبے کوریگولیٹ کرنا ہے۔ بطور تھینک ٹینک (PEC) کا کام حکومت پاکستان کو انجینئرنگ سے متعلقہ تمام معاملات بشمول بجلی گیس پانی کے مسائل کا حل دینا، IPP جیسے کنٹریکٹ کے بارے میں گورنمٹ کو مشورہ دینا اور پالیساں بنا کر دینا ہے- بد قسمتی سے PEC کے ساتھ ایسے مافیا کی اجارہ داری قائم ہوگئی ہے جن کی ترجیح صرف اپنے کاروبار اور ذاتی فوائد پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے ۔
ایسی پالیساں بنا لی گئی ہیں جن سےانجینئرزکے PEC لا ئسنس کی خریدو فروخت کا دھندہ عروج پہ ہے کو ئی کنٹریکٹر ،کنسلٹنٹ یا کپمنی کسی گورنمٹ کنٹریکٹ میں حصہ نہیں لے سکتی جب تک وہ PEC سے رجسٹرڈ نہ ہو اس رجسڑیشن کی فیس اوسطٗ4سے 5لاکھ روپے سالانہ ہے ایک لاکھ سے زائد کمپنیاں آج تک PEC کے ساتھ رجسٹر ہو چکی ہیں اور اس رجسٹریشن کی شرط ہے کہ ہر چھوٹی کمپنی اپنے پاس دو تین اور بڑی کمپنی 15سے 20انجینئرز کو ماہانہ تنخواہ کی بنیاد پر نوکری پہ رکھے۔انہوں نے کہا کہ ان کمپنیوں نے PEC کےکچھ لوگوں کےساتھ مل کر ایسا نظام بنا لیا ہے کہ زیادہ تر کمپنیاں انجینئرز کو نوکری پر رکھنے کی بجائے ان انجینئرز کے لائسنں ایک سال کے لیے خرید لیتی ہیں ایسی خریدو فروخت کا ریٹ سول انجینئرز کے لیے 1 لاکھ روپے سالانہ سے لے کرمکینکل اور الیکٹریکل انجینئرز کے لیے 25 ہزار روپے سالانہ تک ہیں یعنی 2ہزار روپے مہینہ 1انجینئر کی قیمت ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ والدین لاکھوں روپے خرچ کر کے بچوں کو انجینئرز بناتے ہیں اور اس مافیانے انجینئرز کو ماہانہ تنخواہ پر رکھنے کی بجائے یہ سالانہ دھندہ شروع کر رکھا ہے جس کی وجہ سے نوجوانوں نےانجینئرنگ کرنا کم کر دی ہے۔ PEC کی مینجمنٹ کو نہ صرف اس گھناؤنے کاروبار کی خبر ہے بلکہ اس مکروہ لین دین کو مزید فوقیت دینے کے لیے ایسی پالیساں بنا دی گئی ہیں کہ انجینئرز ان ظالموں کے چُنگل میں پھنسے رہیں ۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک غیر انسانی پالیسی جو بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے اس کے مطابق جب ایک انجینئر ایک کمپنی کے ساتھ بائیو میٹرک کروا دے پھر ایک سال تک ڈی رجسٹر/استعفیٰ نہیں دے سکتا اور نہ ہی کسی اورکمپنی کے ساتھ نوکری کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری اعلیٰ حکام سے اپیل ہے کہ خدارا اس انجینئرز پروفیشن کو ڈوبنے سے بچائیں اور اس دھندے کو فی الفور بند کروایا جائے ۔انجینئر ظہور سرور نے کہا کہ میری انجینئر بھائیوں سے اپیل ہے خدارا اپنے لائسنں بیچنا بند کریں تا کہ یہ کمپنیاں انجینئرز کو ماہانہ تنخواہ پر رکھ سکیں ۔انجینئر ظہور سرور نے مزید انکشاف کیا کہ انجینئرنگ کونسل میں اربوں روپے کا ضیاع کیا جا رہا ہے۔موجودہ بجلی کے بحران میں ( PEC)کا نمایاں کردار ہونا چاہیے مگر سا لانہ اربوں روپے بطور فیس اکٹھے گئے جاتے ہیں اور مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے یہ پیسے 5 سٹار ہوٹلوں میں رہائشی کمرے، کھانے اور TADA کی مد میں اڑا دیے جاتے ہیں ۔
انجینئرظہور سرور نے PEC کی فانس رپورٹ جو کہ ایک پبلک کاغذات ہیں میڈیا کو بطورثبوت دکھاتے ہوئے کہا کہ اربوں روپے فنڈ میں موجود ہوتے ہیں جو کہ بینکوں میں رکھ کر سود اکٹھا کیا جاتا ہے۔ PEC میں 65 گورنگ باڈی ممبر ہوتے ہیں ۔ بحری جہازوں پہ بیٹھ کے سمندر کے بیچ ضیافتیں اُڑائی جاتی ہیں جس کے تصاویری ثبوت موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ تعلیم کی ترقی کے لیے ہونے والی اساتذہ کی کانفرنس میں رقص و سُرور کی محفل منعقد کی جاتی ہے جس کے ویڈیو ثبوت موجود ہیں ۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائد نواجوان انجینئرز بے روزگار ہیں نئی نسل انجینئرنگ کرنے سے نفرت کرنے لگی ہے جہاں انجینئرنگ سٹوڈنٹ کا گراف اوپر جا رہا تھا اب تاریخ کی کم ترین سطح پہ آ گیا ہے بڑی بڑی یونیورسیٹوں میں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ بند ہونے پہ آگئے ہیں ۔
انجینئر ظہور نے اعلیٰ حکومتی ارکان سے اپیل کی پبلک کے پیسوں کا اڈیٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے پاس ہوتاہے مگر AGP کوPEC کا آڈٹ کرنے کا اختیار نہیں یہ اختیار AGP کو دیا جائے ۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ نو جوان انجینئرز خصوصا خاتون انجینئرز کو قانون کے مطابق 6+6 مخصوص نشستیں دی جائیں تا کہ نوجوان انجینئرز گورنگ باڈی میں بیٹھ کر اپنے مسائل کے حل کے لیے کام کر سکیں۔