اسلام آباد (آئی ایم ایم)چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعہ کو قومی اسمبلی سے اپنے خطاب میں اولمپک چیمپئن ارشد ندیم کو ان کی جیت پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ ارشد نے نیا اولمپک ریکارڈ بنا کر اور پاکستان کے لیے گولڈ میڈل پاکستان لا کر تاریخ رقم کی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو موقع ملنے پر وہ فتحمندہوتے ہیں۔چیئرمین بلاول نے کہا کہ اس ایوان کو نوجوانوں کے لئے یک زبان ہونا پڑے گا کیونکہ نوجوان بہت اہلیت رکھتے ہیں۔ صرف لیاری میں، ہر دوسرا نوجوان میں اتنا ٹیلنٹ ہے کہ وہ فیفا ورلڈ کپ گھر لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ حال ہی میں انہوں نے پشاور میں نوجوان لڑکیوں سے ملاقات کی جو ڈی آئی خان سے تائیکوانڈو میں حصہ لے رہی ہیں اور پاکستان کے لیے تمغے لا رہی ہیں۔
بدقسمتی کی بات ہے کہ نہ تو وفاقی حکومت نے ضروری تعاون کیا اور نہ ہی صوبائی حکومت نے۔ اگلے اولمپکس میں پاکستان کے ہر صوبے کوپاکستان کے لئے میڈل حاصل کرنا چاہیے۔ چیئرمین پی پی پی نے وفاقی وزیر کھیل کو اس مقصد کے لیے تمام صوبائی وزرا کے ساتھ مل کر انڈومنٹ فنڈ قائم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔چیئرمین بلاول نے کہا کہ پاکستانی نوجوانوں کی صلاحیتوں اور محنت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ جیسے وسیع صحراو ¿ں کو بڑے شہروں میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان کے اندر ہر ممکن وسائل موجود ہیں۔ اسلام آباد صرف ملک کے عوام کی خدمت کے لیے بنایا گیا تھا۔ ان عمارتوں میں ملک کے سب سے بڑے ادارے ہیں۔ تمام سیاستدانوں اور دیگر طاقتور اداروں کے ساتھ ملک میں بیوروکریسی کی ایک پوری بٹالین موجود ہے۔ تاہم جب سے یہ شہر بنا ہے، ہم نے کبھی اس مقصد کو پورا نہیں کیا جس کے لیے یہ بنایا گیا تھا۔ ہم سازشیں کرنا اور آپس میں لڑنا شروع کر دیتے ہیں۔
سیاستدانوں کی آپس کی لڑائی اور فوجی جرنیلوں کی مہم جوئی کی وجہ سے ہم مسلسل نقصان اٹھا رہے ہیں۔ نفرت اور تقسیم کی سیاست عروج پر ہے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ ہم بہت سارے بحرانوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں، اور مہنگائی اور بگڑتے ہوئے امن و امان جیسے مسائل کو مو ¿ثر طریقے سے حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم ملک کو دہشت گردی سے بچانے کے لیے کم از کم اتفاق رائے بھی نہیں بنا پا رہے۔ ہم ٹیلی ویڑن پر ایک دوسرے کو طعنے دے رہے ہیں۔ ہمیں سیاسی میدانوں میں ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے کا طریقہ وضع کرنا ہوگا۔ عوام کو درپیش مسائل کو حل کرنا ہے۔ چیئرمین بلاول نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی کارکن بنگلہ دیش کی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
کوٹہ شیخ حسینہ واجد نے خود 2018 میں ختم کردیا تھا لیکن عدالت نے اسے بحال کر دیا تھا۔ احتجاج تھم نہ سکا اور حسینہ واجد کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ پورے خطے کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے اور عوام کے حقیقی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ اس ماہ کا بحران اداروں کے درمیان دوری کی وجہ سے ہے۔ یہ اس ادارے (پارلیمنٹ) کے ساتھ ایک ادارے کی مسلسل مداخلت سے پیدا ہو رہا ہے۔ عدلیہ کی تاریخ پورے ملک کے سامنے ہے۔ ہماری عدلیہ نے بھی عالمی ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ پاکستان کی عدلیہ اتنی قابل ہے کہ وہ نہ صرف عدالت چلاتی ہے بلکہ ڈیم بھی بناتی ہے۔
عدلیہ مہنگائی کا مقابلہ بھی کر سکتی ہے اور ٹماٹر اور سموسوں کی قیمتیں بھی مقرر کر سکتی ہے۔ دنیا کی کوئی عدلیہ ہماری عدلیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ چیئرمین بلاول نے کہا کہ ملک کے شہری آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔ ہم عدلیہ کے شکر گزار ہیں کہ اس نے تین نسلوں کی طویل جدوجہد کے بعد ہمیں انصاف فراہم کیا۔ عدلیہ نے اعتراف کیا کہ بھٹو شہید کو منصفانہ ٹرائل نہیں دیا گیا، لیکن وہ اس غلط کو درست کرنے کے لیے کوئی واضح قدم نہیں اٹھا سکے۔ چیئرمین پی پی پی نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت چائے کی پیالی میں طوفان ایک مکمل آئینی بحران میں تبدیل ہو رہا ہے۔ میں نہیں، اسپیکر نہیں، اراکین، وزیراعظم یا پارلیمنٹ نہیں بلکہ عدلیہ خود اس بحران کی ذمہ دار ہے۔ یہ عدلیہ کا بحران ہے، عدلیہ کا اور عدلیہ کے لیے۔
قائد حزب اختلاف سے پوچھا جائے کہ کیا ہم نے ان کا انتخابی نشان چھینا؟ یہ عدالت ہی تھی جس نے کہا تھا کہ پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات میں دھاندلی ہوئی جس کی وجہ سے انہیں نشان نہیں مل سکا اور نہ ہی انہیں سیاسی جماعت تصور کیا جائے گا۔ آخری لمحات کے اس فیصلے نے ایک مردہ سیاسی جماعت کو فائدہ پہنچایا، جس کی کوئی انتخابی مہم نہیں تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ یہ ارادہ نہیں تھا۔ پھر فیصلہ کیا گیا کہ ان میں سیٹیں اس طرح تقسیم کی جائیں جیسے وہ ٹافیاں ہوں۔ جب تک یہ ملک آئین، قانون اور جمہوری طرز عمل کو نہیں اپناتا اور اس کے ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کرتے، اس شہر کی تعمیر اور یہاں ہماری موجودگی کا مقصد بے کار رہے گا۔ ہمارا مشورہ صرف یہ ہوگا کہ سیاسی گفتگو کی جائے تاکہ سیاسی نفرت اور تقسیم کے بغیر سیاست دانوں کو ان کا جائز مقام حاصل کی جائے۔