گوجرانوالہ( آئی ایم ایم)صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان محمد کاشف چوہدری ، چیئرمین کریا نہ ریٹیلر ایسوسی ایشن پنجاب اور صدر مرکزی انجمن تاجران گجرانوالہ شیخ بابر کھرانہ ، جنرل سیکرٹری میاں ثاقب غفور، صدر کلاتھ مارکیٹ بورڈ شیخ افضل جج ، جنرل سیکرٹری شیخ جواد اسحاق، چیئرمین سپریم کونسل موبائل ایسوسی ایشن ملک سلیم اور مرکزی تاجر امن کمیٹی کے صدر میاں محمد اکرم و دیگر تاجررہنماوں نے کہا ہے کہ بجلی کے بلوں سمیت افراط زر نے عوام کا جینا محال کر دیا ھے جبکہ بجلی کے بلوں پر لگائے گئے ٹیکس کم کرنے کی بجائے مزید فکس چارجز لگا دیے گئے۔ تاجر 42 لاکھ بجلی کے کمرشل بلوں پر سالانہ 110 ارب روپے سے زائد انکم ٹیکس ادا کرتے ھیں اوربجلی کے بلوں پر انکم ٹیکس،سیلز ٹیکس کے علاوہ 44 قسم کے مزید ٹیکس ادا کر رھے ھیں۔ تاجر رہنمائوںنے کہا کہ حکمران کہتے ہیں کہ تاجر ٹیکس نہیں دیتے تاجر 42 لاکھ بجلی کے کمرشل بلوں پرسالانہ 110 ارب روپے سے زائد کا انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر 44 قسم کے مزید ٹیکسز اس کے علاوہ ہیں۔حکومت نے عوام کے کندھوں سے بوجھ اتارنے کے بجائے ان کے کندھوں پر مزید بوجھ لاد دیا ہے جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔تاجر اور عوام مزید ٹیکسز دینے کی ہمت نہیں رکھتے۔ کاروبار تباہ ہو گئے ہیں ۔ صنعتیں نہیں چل رہی اور کارخانے بند ہو رہے ہیں ہم اس طرح کا ظلم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے 28 اگست کو ملک گیر تاریخی شٹر ڈاون ہڑتال کی اور حکومت کو پیغام دیا کہ تاجر متحد ہیں اور وہ تاجر کش، تجارت دشمن لاگو کی جانے والی تاجر دوست سکیم کو کسی صورت نہیں مانتے انہوں نے کہا کہ سوئی گیس کی قیمتوں،سلیب ریٹس اور ٹیرف میں اضافہ کو مسترد کرتے ھیں۔بجلی و گیس کی موجودہ قیمتوں میں کاروبار جاری رکھنا ناممکن ھو چکا ہے ہم تاجر دوست اسکیم کے نام پر لگایا گیا ماھانہ ظالمانہ ٹیکس ادا نہیں کر سکتے انہوں نے کہا کہ ہم ایف بی آر کے ساتھ اس تاجر دشمن سکیم کے خاتمے کیلئے مذاکرات بھی کر رہے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ہم ملک گیر تجارت بچاو مز احمتی تحریک کے دوسرے مرحلے پر ملک گیر مشاورت بھی کر رھے ھیں۔ ہم حکمرانوں کی عیاشیوں اور مفت خوریوں کیلئے ٹیکس نہیں دے سکتے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ ہم اگے بڑھ رہے ہیں اگر ہمارے مطالبات کو تسلیم نہ کیا گیا اور تاجر دوست سکیم کے ٹیکس ٹیبل کو ختم نہ کیا گیاور ملک میں منصفانہ ٹیکس نظام لاگو نہ ہوا اور اشیائے خورونوش دالوں، چاول پر ود ہونڈنگ ٹیکس ختم نہ ہوا تو اگلے چند دنوں میں تجارت بچاو مزاحمتی تحریک کے دوسرے مرحلے کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔
اس موقع پر صدر مرکزی انجمن تاجران گجرانوالہ اور چیئرمین کریا نہ ریٹیلر ایسوسی ایشن پنجاب شیخ بابر کھرانہ نے کہا ہے کہ صدر مرکزی تنظیم تاجران پاکستان محمد کاشف چوہدری نے جو پروگرام دیا ہے اس پر عملدرآمد اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک دونوں تنظیمات آل پاکستان انجمن تاجران اور تنظیم تاجران پاکستان مشترکہ پروگرام ہڑتالوں کا یا احتجاج کا نہیں دیں گی اس وقت تک پاکستان کے تاجر نیو ٹرل رہیں گے اگر یہ دونوں تنظیمات اکٹھی ہو کر جو بھی فیصلہ دے دیں گے پروگرام اس پر عمل کیا جائے گا کوئی ایک تنظیم بھی اپنا علیحدہ پروگرام دے گی اس پہ عمل نہیں ہوگا ،دونوںتاجر تنظیموں کا اتحاد ضروری ہے ۔اگر انہوں نے ان چیزوں سے بچنا ہے کیونکہ میرے علم میں یہ بات آ ئی ہے کہ ہر بندہ یہ ہڑتال جو کامیاب ہوئی ہے اس کا کریڈیٹ لے رہا ہے اور اپنا سمجھ رہا ہے کہ یہ میری کارکردگی ہے لیکن یہ مشترکہ کاوشتھی کسی ایک بندے کی کاوش نہیں ہے سب دوستوں کی کاوش ہے گجرانوالہ میں بھی اگر یہ ہڑتال کامیاب ہوئی ہے تو یہ سب دوستوں سے مل کر ہڑتال کامیاب ہوئی ہے کسی ایک بندے کے کہنے پر نہیں ہوئی کیونکہ آل پاکستان لیول پر دو تنظیمات کام کر رہی ہیں.
ایک آل پاکستا ن انجمن تاجران ہیں دوسری تنظیم تاجران پاکستان ہے ایک تنظیم کو لیڈ کرتے ہیں محمد اجمل بلوچ اور دوسری تنظیم کو لیڈ کرتے ہیں محمد کاشف چودھری یہ تاجروں کی جو ہڑتال ہوگی دو دن کی ہو تین دن کی ہو یہ بالکل غیر سیاسی ہوگی اس میں کسی سیاسی جماعت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا کوئی بھی سیاسی جماعت ہو جماعت اسلامی ہو مسلم لیگن لیگ ہو جماعت اسلامی ہو مسلم لیگق ہو پیپلز پارٹی ہو پی ٹی آئی ہو یا جمیعت علما اسلام ہو کسی بھی سیاسی پارٹی کا تعلق نہیں ہوگا کہ یہ صرف تاجر برادری عوام الناس اور لوکل جتنے بھی سماجی کارکن ہیں ان کی مدد سے ہوگی ان پولیٹیکل پارٹیوں سے مدد نہیں لی جائے گی کیونکہ یہ پولیٹیکل پارٹیاں ہی تو اس سارے گند کا سبب ہیں کیونکہ دیکھیں بجلی کا بل ہے گیس کا بل ہے میڈیکل ہے تعلیم ہے دیگر سہولیات ہیں دیگر جتنے بھی ہیں وہ 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے اور اس میں ٹیکس جو ہے وہ ایک کروڑ تا جر کا مسئلہ ہے ٹیکس اور 25 کروڑ عوام کا مسئلہ ہے ساری سہولیات ریاست کی ذمہ داری ہے جس میں یہ فیل ہو چکے ہیں اب حکومت نے خزانہ بھرنے کے لئے ڈیلی جرمانے کرتی ہے ہر جگہ پہ جرمانہ ہے کوئی ایسی جگہ نہیں ہے کہ جہاں پہ جرمانہ نہ ہو ایسے لگتا ہے کہ ریاست نے جرمانے کرکر کے خزانہ بھرنے کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے ۔