کوئٹہ (آئی ایم ایم) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک بار پھر عوام کو جلد و بلاامتیاز انصاف کے لیے ملک میں عدالتی اصلاحات اور آئینی عدالت کے قیام پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئین سازی کے معاملے پر ہم اس بار کالے کوٹ نہ کالے روب کی دھمکی میں آئیں گے۔ پی پی پی چیئرمین نے آئینی ترامیم پر اپنی جماعت کامجوزہ ڈرافٹ بھی وکلا کے سامنے پیش کرتے ہوئے زور دیا کہ ہماری تجویز ہے صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالتیں بنائی جائیں۔ چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان کا عدالتی نظام دہشت گرد متاثرین کو انصاف نہیں دلوا سکتا ہے، 50 فیصد کیسز میں ہمارے ججز سزا نہیں دلواسکتے، عدالتی اصلاحات بہت بڑا کام ہیں اور ہم متفقہ طور پر آئینی ترمیم لا لا سکیں گے۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس سے جاری کردہ پریس رلیز کے مطابق، پی پی پی چیئرمین نے کوئٹہ میں پیپلز لائرز فورم سے خطاب کرتے ہوئے، کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کا تمام معاملات پر بیانیہ اور موقف واضح ہے، اور اُس کا نظریہ آج سے نہیں تین نسلوں سےچلتا ہوا آرہا ہے۔ جو غلط ہوتا ہے ہم کہتےہیں کہ غلط ہے.
ملک میں اس وقت بہت سے مسائل ہیں جو حل طلب ہیں، لیکن تمام مسائل فوری حل بھی نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ نظریے، منشور اور عوام سے کیئے گئے وعدوں کی روشنی میں جو ممکن ہوسکے گا، وہ پی پی پی حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کرتی رہے گی۔ سیاست ہمیشہ ناممکن کو ممکن بنانے کا آرٹ ہے۔ حکومت کا حصہ بننے کے سوا، وزیراعظم نہ ہوتے ہوئے بھی، میں آپ کے لیے کیا حاصل کرسکتا ہوں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسلام آباد میں لڑائیاں چلتی رہتی ہیں، اسلام آباد میں بڑے بڑے ہاتھی لڑتے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں ہونے والی لڑائیوں کا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ انہوں نے میثاقِ جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے 2006ع میں وعدہ کیا تھا کہ عوام کو جلد انصاف دلانے کے لیے ملک میں عدالتی اصلاحات متعارف اور آئینی عدالت کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم، این ایف سی ایوارڈ، اور پختونخواہ صوبے کو نام دینے سمیت تمام کامیابیاں حاصل ہوئیں، لیکن عدالتی اصلاحات کا معاملہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ انہوں نے کہاکہ اِس وقت ملک میں سیاسی حالات ایسے ہیں کہ ہم اُس دستاویز (میثاقِ جمہوریت کا ) وہ کمپوننٹ حاصل کرسکتے ہیں۔
پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ اُن کی جماعت، مرکز میں حکومت میں نہ ہونے اور قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے، ملک میں عدالتی اصلاحات کا مسودہ اپنی مرضی کے مطابق ڈرافٹ نہیں کرسکتی، لیکن وہ ایک ایسا متفقہ مسودہ لانے کی کوشش کریں گے، جو اُن کی جماعت کے منشور اور شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے وعدے کے مطابق ہو۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب میثاقِ جمہوریت پر دستخط ہو رہے تھے، تو میں اس وقت کمرے میں تو موجود نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ ملک میں آئین عدالتوں کے قیام کی تجویز شہید محترمہ بینظیر بھٹو ہی نے دی ہوگی۔ مجھے نہیں لگتا کہ میاں محمد نواز شریف نے یہ تجویز دی ہوگی کہ جو آئینی عدالت بنے اس تمام صوبوں کو برابری کی نمائندگی ملے۔ انہوں نے کہا کہ یہ وہ نقطہ ہے جو صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو عدلیہ سے تجربے میں مِلا ہے۔ آپ قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کا کیس اٹھا کر دیکھ لیں، آپ شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کا ڈسمسل اٹھا کر دیکھ لیں، اور آپ میاں نواز شریف کی حکومت کا ڈسمسل کیس بھی دیکھ لیں۔ انہوں نے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ آپ آج تک ججز بننے کا طریقہ کار دیکھ لیں۔ آپ لاہور ہاِئی کورٹ اور بلوچستان ہائی کورٹ کےاثر و رسوخ کا موازنہ کرلیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جب اُن کی جماعت ملک کا آئین بنا رہی تھی تو اس میں پارلیمانی نظام تھا، صوبائی حکومتیں تھیں، اور وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سینیٹ بھی تھا۔ پارلیمان، جہاں قانون سازی اور آئین سازی ہونی ہے، وہاں ہم نے یہ نظام لاگو کیا ہے۔ (لیکن) جس ادارے نے اُس آئین کی ڈیفینیشن نکالنی ہے، وہاں یہ نظام لاگو نہیں کیا جاسکا۔ وقت آگیا ہے کہ اُس کمزوری کو درست کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے جب 2006ع میں آئینی عدالت کی بات کی تھی، تو اس وقت بھی ہم نے ججز کی تعیناتی کے حوالے سے بھی ایک طریقہ کار سوچا تھا۔ جس کے مطابق ججز کی تعیناتی کی تجویز تو عدلیہ دے گی، لیکن حتمی فیصلہ پارلیمانی کمیٹی کرے گی، جس میں حکومت اور اپوزیشن کو برابر نمائندگی حاصل ہوگی۔ پی پی پی چیئرمین کا کہنا تھا کہ پاکستان کا عدالتی نظام دہشت گرد متاثرین کو انصاف نہیں دلوا سکتا ہے۔ عام آدمی جو دہشت گردی میں انصاف مانگتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ آپ کا وکیل صحیح نہیں۔ دہشتگردی کیسز میں کنویکشن ریٹ 50 فیصد بھی نہیں ہے۔
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ مولانا فضل الرحمنٰ کی جماعت کا بھی اس حوالے سے مؤقف رہا ہے اور یہ بہت پہلے سے رہا ہے اور اب شاید اتفاق ہوگا تو ہم متفقہ طور پر آئینی بناسکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مسلم لیگ(ن)کا اس بات پر اتفاق حاصل نہیں کرسکے کہ اگر 15 فیصد کیسز کے لیےوفاق میں آئینی عدالت بنا رہے ہیں، تو نچلی سطح تک بھی ایسی عدالتیں بنائی جائیں تا کہ عوام کو جلدی اور فوری انصاف ملے۔ ہائی کورٹس میں 50 فیصد کیسز آرٹیکل 199 کے ہیں اور 50 فیصد دوسرے مقدمات ہوں گے۔ تو اگر 15 فیصد پر وفاق میں آئینی عدالت بن سکتی ہے تو پیپلز پارٹی کی سوچ یہ ہے کہ صوبائی سطح پر آئینی عدالت کا بننا ضروری ہے تاکہ یہاں بھی لوگوں کو جلدی انصاف ملے۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے زور دیا کہ آئینی عدالت کے قیام کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی دیکھنا ہوگا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے جو طریقہ 18 ویں ترمیم کے وقت اپنایا تھا، اس پر واپس جانا چاہیے، جس میں جوڈیشری سے تجویز لی جائیں لیکن اس کی منظوری کابینہ کی اکثریت رائے سے لی جائے۔ پی پی پی چیئرمین نے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ جو اتفاق رائے ہوا اور جو جمعیت علمائے اسلام(ف) کی اپنی بھی ایک تجویز تھی، کہ موجودہ جوڈیشل کمیٹی اور پارلیمانی کمیٹی کو ضم کیا جائے۔
اِس پر زیادہ اتفاق رائے کی امید ہے، اس تجویز پر ہمارا اعتراض نہیں ہے لیکن پیپلز پارٹی کی شروع سے 18 ویں ترمیم میں جو تجویز رہی ہے، اور ہمارے مسودے میں بھی وہی موجود ہے جس میں پارلیمان کو جوڈیشری تجویز کرتی ہے اور پارلیمان پھر فیصلہ کرتی ہے۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ جو اتفاق رائے مجھے بنتا ہوا نظرآرہا ہے اس میں جوڈیشری کو پارلیمانی کمیٹی کے ماتحت کیا جائے گا، جس میں جوڈیشری، پارلیمان، وکیل شامل ہوں گے۔ اس کمیٹی میں بیٹھے ہوئے لوگ جو بھی تجویز دینا چاہیں اس پر اتفاق رائے بنا کر ججوں کی تعیناتی کی جائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ انہیں اس بات پر کوئی مسئلہ نہیں کہ اتفاق رائے اس طرح ہو یا مسلم لیگ (ن) کی طرف سے تجویز کیے گئے طریقے سے ہو، مگر یہ ہمیں طے کرنا چاہیے کہ جس طریقے سے آج تعیناتیاں ہورہی ہیں اس میں اصلاحات لانی ہوں گی۔ موجودہ عدالتی نظام جمہوری نہیں ہے اور جو لوگ بیٹھے ہوئے ہیں انہی کی مرضی چلتی ہے۔
پی پی پی چیئرمین نے شرکاء سے مخاطب ہوے ہوئے کہا کہ وکلاء کا اس حوالے سے صف اول کا کردار ہے۔ میں کل سے پورے ملک کے ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بار میں جاوَں گا اور ہم اپنے اختیار کے مطابق کام کریں گے، پہلے صرف وکلاء کی سیاست ہوتی تھی اب تو ججز سیاست بھی ہوتی ہے اور اکثر دونوں ایک ساتھ چلتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف آئینی عدالت بنانا ضروری ہے بلکہ صوبائی سطح پر اصلاحات کرنا ضروری ہیں، ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں تبدیلی لانا ضروری ہے۔ میں اگر آئین سازی کرنے جا رہا ہوں اور اپنے منشور کی بنا پر ایسا کرنے جا رہا ہوں تو صرف عوام کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ کہیں کہ میں صحیح کررہا ہوں یا غلط کررہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میرٹ میرٹ کرتے کرتے آپ دیکھ لیں، جوڈیشری میں میرٹ کیا بچی ہے۔ مجھے قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلانے کیلئے 50 سال انتظارکرنا پڑا۔ معذرت کیساتھ، اس بار ہم نے بلیک کوٹ نہ بلیک روب کی دھمکی میں آنا ہے۔میں اپنے منشورکی بنیاد پر آئین سازی کرنے جارہا ہوں۔