“اب کے مار ”
تحریر: ڈاکٹر عمران آفتاب
کہتے ہیں کہ سلطان محمود غزنوی کے دور میں ایک نیا جرنیل فوجی قیادت کے لیے پیش ہوا۔ سلطان نے اسے آزمائش کے طور پر سرحدی علاقے کے قریب ایک چھوٹے سے قلعے پر حملہ کرنے کا حکم دیا۔ جرنیل نے اپنے ہزاروں فوجی، ہاتھی، گھوڑے، اور توپیں جمع کیں اور قلعے کی طرف روانہ ہوا ! جرنیل نے بڑی شان سے جھونپڑی کا محاصرہ کیا اور کئی دن تک اپنی “فتح” کا انتظار کرتا رہا۔
مگر جونہی وہ پیش قدمی کا ارادہ کرتا ، اندر سے دھواں اٹھنا شروع ہو جاتا۔ نڈر جرنیل خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتا ۔ اسی طرح کئی بار ہوا ۔ یہاں تک کہ جری سالار کو سلطان کی طرف سے واپسی کا پیغام ملا۔
آخر کار، جب اس “محاصرے” کا کوئی نتیجہ نہ نکلا، جرنیل خالی ہاتھ واپس اپنے دارالحکومت پہنچا ۔ سلطان نے رپورٹ طلب کی۔ جرنیل نے فاتحانہ انداز میں بتایا کہ حضور ہم قلعہ کے قریب پہنچ چکے تھے ، مگر دشمن نے ہم پر دھواں چھوڑ کر ہماری فوجوں کو پسپا کر دیا۔ البتہ میں بارہ ضلعوں سے ہوتا ہوا چمبچیر و عافیت آپ کے پاس حاضر ہو گیا ہوں۔
سلطان نے جرنیل کو شاباشی دی اور فرمایا کہ جس قلعے سے دھواں اٹھتا دکھائی دے رہا تھا وہاں اندر صرف ایک بزرگ اپنی چائے کی پتیلی میں پانی گرم کر رہے تھے۔
مگر خیر۔ کم از کم تم اس جھونپڑی کے ڈی چوک تک تو پہنچے۔ علی امین گنڈا پور کی اسلام آباد پر یلغار بھی کچھ اسی قسم کی تھی۔ پورے صوبے کی سرکاری مشینری، ایمبولینسز، اور فائر بریگیڈ کو لے کر اسلام آباد آئے، لیکن آخر میں یہ یلغار بھی “جھونپڑی” کے برابر ہی نکلی۔ یہ مسلسل تیسری بار ہے کہ علی امین گنڈا پور نے پورے صوبائی لاؤ لشکر کے ساتھ وفاقی دارالحکومت کا رخ کیا اور بغیر کسی ٹھوس نتیجہ کے واپسی کی راہ لی۔ ان کی اس مہم کا سب سے حیران کن پہلو یہ ہے کہ پورے صوبے کی سرکاری مشینری، جس میں ایمبولینسز اور فائر بریگیڈ بھی شامل تھیں، کو اس غیر ضروری احتجاجی مظاہرے کی نذر کر دیا گیا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس یلغار کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ کوئی ٹھوس مقصد کے تحت کیا گیا تھا یا پھر یہ محض ایک سیاسی ڈرامہ تھا جس کا مقصد صرف توجہ حاصل کرنا تھا؟
عمران خان کی جانب سے علی امین گنڈا پور کو احتجاجی سیاست پر اکسانا اور انہیں میدان میں بھیجنا حیران کن ہے، خاص طور پر اس وقت جب خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کو اپنی ساکھ اور عوامی حمایت کی بحالی کی اشد ضرورت ہے۔ گنڈا پور کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں نے نہ صرف حکومتی وسائل کا ضیاع کیا ہے بلکہ صوبے کے عوام میں بھی شدید بے چینی پیدا کی ہے.یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں تحریک انصاف، جو اس وقت پہلے ہی کئی محاذوں پر بر سر پیکار ہے، ایک ایسے شخص کو احتجاجی سیاست کا علمبردار بنا رہی ہے جس کی ہر یلغار کا اختتام “اب کے مار” پر ہوتا ہے۔ علی امین گنڈا پور کا بار بار مولا جٹ سٹائل میں اسلام آباد پر دھاوا بولنا عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے ان میں اضافہ کر رہا ہے۔ایک سیاسی جماعت کا فرض ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ایوانوں میں اٹھائے اور ان کا حل تلاش کرے، نہ کہ سرکاری مشینری اور عوامی وسائل کو اپنے ناکام مظاہروں میں جھونک دے۔ اس قسم کی سیاست نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ یہ سیاسی بصیرت کی بھی عکاسی نہیں کرتی۔
تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ اپنی احتجاجی سیاست کے طریقہ کار پر نظرثانی کرے اور ایسے طریقے اپنائے جو عوام کے حقیقی مسائل کے حل کی طرف لے جائیں۔عوام تو انتظار کر رہے تھے کہ شاید کوئی بڑا مقصد پورا ہوگا، لیکن نتیجہ پھر وہی: ناکامی، اور ایک خالی ہاتھ واپسی ۔ ے مقصد یلغاروں میں وقت اور وسائل کا ضیاع کرنے سے بہتر ہے کہ حکمت اور بصیرت کے ساتھ میدان میں اترا جائے۔ بصورت دیگر، تاریخ میں محمود غزنوی کے جرنیل کے ساتھ گنڈاپوری لطائف کا دیوان بھی وجود میں آ جائے گا !