مری (آئی ایم ایم) پاکستان میں غیر متعدی امراض (NCDs) میں خطرناک حد تک تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں 41 فیصد سے زائد بالغ افراد یا تو موٹے یا زیادہ وزن کا شکار ہیں۔ مزید برآں، اس وقت 33 ملین سے زیادہ لوگ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، مزید 10 ملین اس بیماری کی نشوونما کے دہانے پر ہیں۔ فوری پالیسی مداخلت کے بغیر، 2045 تک ذیابیطس کے مریضوں کی تعداد 62 ملین تک بڑھنے کا امکان ہے۔ ہر منٹ کے بعد ایک پاکستانی کو دل کا دورہ پڑتا ہے اور ڈھائی منٹ کے بعد، ایک پاکستانی دل کی بیماری کی وجہ سے مر جاتا ہے۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن کے مطابق پاکستان میں روزانہ تقریباً 1100 اموات ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں سے ہوتی ہیں۔ غیر صحت بخش خوراک دل، ذیابیطس، موٹاپا، گردے اور دیگر بہت سی مہلک غیر متعدی بیماریوں کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈ اینڈ بیوریج پراڈکٹس (UPPs)، جن میں اکثر چینی، نمک یا ٹرانس فیٹس کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ان بیماریوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا سے ثابت شدہ موئثر پالیسیوں کی عدم موجودگی جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز پر فرنٹ آف پیک نیوٹریشن لیبلنگ کا نہ ہونا ان بنیادی وجوہات میں سے ہیں جن کی وجہ سے لوگ صحت مند کھانے کے انتخاب کو اپنانے سے قاصر ہیں۔ ان خدشات کا اظہار مری کے مقامی ہوٹل میں میڈیا سیمینار کے دوران کیا گیا۔ثناء اللہ گھمن، جنرل سیکرٹری اور ڈائریکٹر آپریشن PANAH نے کہاکہ پاکستان میں ذیابیطس کے انتظام پر ہونے والیاخراجات کا تخمینہ 2021 میں 2,640 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ تھا۔ الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور بیوریج پراڈکٹس خاص طور پر میٹھے مشروبات اور جنک فوڈز ذیابیطس، دل کی بیماری، کینسر، گردے کی خرابی، اور دیگر دائمی بیماریاں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
” انہوں نے پاکستان میں ذیابیطس اور دیگر این سی ڈیز کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کے لیے پالیسی ایکشن ریگولیٹری اداروں کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی ایک قومی ادارہ ہے جو ملک میں صحت بخش خوراک تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے قومی معیارات اور ضوابط کی تیاری کا ذمہ دار ہے۔ جناب ثناء اللہ نے کہا کہ 2023 میں ہماری کامیاب مہم کے نتیجے میں میٹھے مشروبات اور جوسز پر 20 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) عائد کی گئی۔ شوگر ڈرنکس انڈسٹری کی کافی مداخلت کے باوجود حکومت نے فنانس بل 2024-25 کے دوران اس ٹیکس کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جو کہ درست سمت کی طرف قدم تھا۔ تاہم، ایف بی آر کو بتدریج ان ٹیکسوں کو خوردہ قیمت کے کم از کم 50 فیصد تک بڑھانے پر غور کرنا چاہیے۔ ان ٹیکسوں سے جمع ہونے والی آمدنی کو سستی قیمتوں پر صارفین تک صحت بخش خوراک تک رسائی بڑھانے کے لیے مختص کیا جا سکتا ہے۔
”PANAH کے جنرل سکریٹری، ثناء اللہ گھمن نے ترمیم شدہ NCD کے خطرے کے عوامل کے بارے میں عوامی بیداری بڑھانے اور الٹرا پروسیسڈ فوڈز کے استعمال کو کم کرنے کے لیے شواہد پر مبنی پالیسیاں بنانے کے لیے پالیسی سازوں کے ساتھ تعاون کرنے کے ایسوسی ایشن کے دو رخی انداز پر روشنی ڈالی۔ جناب طارق ورک صدرRIUJنے کہاکہ،ہمیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی دائمی بیماریوں کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے الٹرا پروسیسڈ فوڈ اور بیوریج پراڈکٹس پر پیک نیوٹریشن لیبلنگ اور وارننگ سائنز اور شوگر ڈرنکس پر ٹیکس بڑھانے جیسی پالیسیوں کو ترجیح دینی چاہیے۔ ‘