اسلام آباد(آئی ایم ایم) سابق سفارتکار اورنور مقدم کے والد شوکت مقدم نے چیف جسٹس سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ڈیڑھ سال سے زیر التواء نور مقدم کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سنیں، ملزم ظاہر جعفر کی فیملی نے صلح کیلئے رابطہ کیا تھا مگر اسے مسترد کر دیا تھا،ایسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچانا بہت ضروری ہےتاکہ آئندہ کوئی بچی اس طرح کے ظلم کا نشانہ نہ بنے،نور مقدم کی سالگرہ کے موقع پرحقوق العباد فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میںمعروف سماجی کارکن طاہرہ عبداللہ، ریما طارق و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے شوکت مقدم کا مزید کہنا تھا کہ چاہے کوئی کتنا بھی طاقتور کیوں نہ ہو اسے کسی کی بیٹی کی زندگی سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی، سپریم کورٹ میں گذشتہ ڈیڑھ برس سے کیس زیر التواء پڑا ہواہے، یہ کوئی عام کیس نہیں بلکہ اس کیس کےساتھ بہت ساری بچیوں کی زندگی وابستہ ہے،اس کیس کی وجہ سے بیرون ملک سے سرمایہ کاری رک گئی ہے، چیف جسٹس اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر سنیں تاکہ ظاہر جعفر جیسے درندوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جا سکےاور آئندہ کسی کو بھی کسی بچی کیساتھ ایسا ظلم دہرانے کی ہمت نہ ہو سکے،پاکستان کی پوری سول سوسائٹی پاکستان کی بیٹیوں کیساتھ کھڑی ہے۔
26 ویں ترمیم کے بعد آئینی عدالت کے قیام سے سپریم کورٹ پر سے مقدمات کا بوجھ کم ہوگا اور سول مقدمات سننے میں آسانی ہوگی،اس موقع پر طاہرہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ عام طور پر سالگرہ کا دن خوشیوں کا دن ہوتا ہے مگر نور مقدم کے والدین کیلئے یہ دن اداسی کا دن ہے،یہ ایک اوپن اینڈ شٹ کیس ہےاور ملزم کیخلاف تمام تر شواہدموجود ہیں، مگر نامعلوم کیوں اسے گذشتہ ڈیڑھ برس سے زیر التواء رکھا گیا ہے،پارلیمنٹ ایسے قوانین پاس کرے جن سے خواتین کے قتل کی روک تھام ہو سکے،ریما طارق نے کہا کہ نور مقدم اور سائرہ انعام سمیت کسی کے بھی قاتل کو سزا نہیں دی جا سکی جو کہ تشویشناک امر ہے۔