اسلام آباد(آئی ایم ایم) سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے کہا ہے کہ پاراچنار سے ڈکی تک خون ریزی، آئی ایم ایف کی ایماء پر عوام کا معاشی قتل، سموگ سمیت ماحولیاتی تباہی تمام بڑی پارٹیوں کی ناکامی ہے، محنت کش عوام اور محکوم اقوام کو فرسودہ نظامِ حکمرانی سے کوئی امید باقی نہیں، ترقی پسند متبادل ہی معاشی بدحالی، نفرتوں اور ریاستی جبر کا توڑ ہے،گذشتہ روزپاراچنار میں 40بے گناہ انسانوں کی ٹارگٹ کلنگ، بلوچستان میں مسلسل ریاستی جبر و تشدد سب کچھ ظاہر کرتا ہے کہ سرکار مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے، پاکستان کو درپیش بحرانوں کا عکس دنیا بھر میں دیکھا جا سکتا ہے،انہوں نے ان خیالات کا اظہار نیشنل پریس کلب اسلام آبادمیں عوامی ورکرز پارٹی کے زیر اہتمام منعقد ہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا، سیمینارمیں جڑواں شہروں کے ترقی پسند سیاسی کارکنان، دانشوروں، طلبا، ٹریڈ یونینسٹوں اور عام شہریوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی،سیمینار سے سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے علاوہ عوامی وکرز پارٹی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری ڈاکٹر عاصم سجاد اختر، ڈاکٹر طوبیٰ سید، سفی اللہ بیگ اور دیگر نےبھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
مقررین کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان خونریزی اور بربریت کے نہ ختم ہونے والے سلسلے میں ڈوبتےچلے جا رہے ہیں، بلوچستان سے لے کر گلگت بلتستان تک تمام لسانی اقلیتوں کی زمین، پانی اور دیگر قدرتی وسائل کی لوٹ مار کا بازار گرم ہے، ،ترقی کے نام پر روڈ، بڑے منصوبے، ٹورازم اور ہر طرف منافع خوری نے ناصرف طبقاتی ناہموری کو گہرا کیا ہے بلکہ ماحولیاتی بحران کی شدت کا باعث ہیں،افسوس ناک امر ہے کہ ان بگڑتے ہوئے سیاسی، معاشی، ماحولیاتی اور سماجی بحرانوں کے باوجود، سیاسی اور فکری پنڈتوں کی توجہ صرف تخت کی لڑائیوں پر مرکوز ہے، مقررین نے کہا کہ پاکستان کو درپیش بحرانوں کا عکس دنیا بھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کو بڑی حد تک لبرل سیاست کی ناکامی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جو امریکی میں مزدور طبقے کی امنگوں اور دنیا بھر کے عوام کی سامراج مخالف امنگوں کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے، اگر پاکستان کے سیاسی متبادل صرف نون لیگ اور تحریک انصاف کے چلے ہوئے کارتوس، مذہبی دائیں بازو یا عمران خان جیسی شخصیات کے خود ساختہ بت شکن ابھار ہی ہیں تو پاکستان بحرانوں کی کھائی میں مزید ڈوبتا ہی رہے گا ،مقررین نے کہا کہ ترقی پسند بائیں بازو کی سیاست واضح وژن فراہم کرتی ہے، جو طبقاتی جنگ، مظلوم اقوام کے خدشات، ماحولیاتی تباہی کی روک تھام، اور سامراج مخالفت کے اصولوں پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ نوجوانوں کو اس متبادل وژن کی طرف راغب کرنا ضروری ہے، ورنہ جو لوگ مرکزی دھارے کی جماعتوں سے مایوس ہوں گے وہ ان شدت پسندوں کی طرف راغب ہوں گے جو مذہب کے نام پر نفرت کا بازار گرم کرتے ہیں،آخر میں ایک ناٹک پیش کیا گیا جس میں تمام مسائل کی عکاسی کی گئی اور متبادل بائیں بازو کی سیاست کی اشد ضرورت پر زور دیا گیا۔