اسلام آباد (آئی ایم ایم) پائیدار اور روشن مستقبل کی تعمیر کیلئے پاکستان کو ماحولیاتی پالیسیوں کو مضبوط بنانا ہوگا۔پاکستان کو مستقبل کی حفاظت اور معاشرتی استحکام کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے یہاں پالیسی ادارہ برائے پائیدار ترقی (ایس ڈی پی آئی) کے زیر اہتمام شراکتی ماحولیاتی وعدوں کی تشکیل: این ڈی سی 3.0 برائے پاکستان کے موضوع پرقومی ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ورکشاپ کا مقصد پاکستان کے قومی طور پر مقرر کردہ ماحولیاتی وعدوں (این ڈی سی) کے تحت شراکتی ماحولیاتی حکمت عملی کی تشکیل پر غور و خوض کرنا تھا۔ ایس ڈی پی آئی کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شفقّت منیر نے پاکستان کی ماحولیاتی پالیسیوں کو مضبوط بنانے اور ایک پائیدار مستقبل کی تشکیل کی اہمیت پر زور دیا۔
گلوبل کلائمٹ چینج امپیکٹ اسٹڈیز سینٹر (جی سی آئی ایس سی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عارف گوہر نے کہا کہ کہ پاکستان کو مستقبل کی حفاظت اور معاشرتی استحکام کے لئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ماحولیاتی وعدوں کو پورا کرنے کے لئے مضبوط لچکدار منصوبے اور اختراعی حل تیار کرنے چائیں۔انہوں نے بڑھتی ہوئی سمندری سطح کے اثرات پر قابو پانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔پاکستان میںیو این ڈی پی کے نمائندے سیموئیل رزق نے این ڈی سی کی اہمیت کو بین الاقوامی ماحولیاتی وعدوں کے تناظر میں اجاگر کیا۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ ورکشاپ ایک جامع اور حقیقت پسندانہ این ڈی سی دستاویز کی تیاری کا پلیٹ فارم ثابت ہوگی۔
وزارت موسمیاتی تبدیلی کی سیکریٹری عائشہ موریانی نے سبز تبدیلی کو فروغ دینے کے لئے پالیسیوں کی ہم آہنگی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو سبز پالیسیوں کے لئے ترغیبات فراہم کرنا ہوں گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں قابل رسائی، کم لاگت اور مقامی حالات کے مطابق ٹیکنالوجی اپنانا ہوگی اورخاص طور پر شمسی توانائی اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔جرمن شراکت برائے ماحولیاتی تبدیلی (GIZ) کی ثوبیہ بیکر نے حکومت اور عوام کے اشتراک سے پورے معاشرے کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ نجی اور سرکاری شعبے مل کر ہی اصل مقاصد حاصل کر سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نجی شعبہ جدت فراہم کرتا ہے جبکہ سرکاری شعبہ ان اختراعات کی حمایتی پالیسیاںتیار کرتا ہے اس لئے دونوں شعبوں کو باہم مل کر اپنے اہداف تک پہنچنا ہوگا۔پاکستان رینیوایبل انرجی کولیشن کے چیئرمین محمد مصطفیٰ نے عالمی ماحولیاتی مالی معاونت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ۔ورکشاپ میں پاکستان کے دوسرے این ڈی سی پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے”ٹین بلین ٹری سونامی“اور قابل تجدید توانائی و توانائی کی کفایت شعاری پر بھی گفتگو کی گئی۔ورکشاپ کے دوسرے حصے میں پنجاب اسمبلی کی پبلک اکاو ¿نٹس کمیٹی کے چیئرمین احمد اقبال چوہدری نے وفاقی اور صوبائی سطح پر عمل درآمد کے ڈھانچے میں پائی جانے والی خامیوں کی نشاندہی کی۔
انہوں نے مقامی حکومتوں کے مضبوط نظام کی ضرورت پر زور دیا تاکہ ذیلی سطح پر این ڈی سی جیسے وعدوں کو عملی جامہ پہنا یا جا سکے۔ورکشاپ کے اختتام پر ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری نے کہا کہ اس پلیٹ فارم کے ذریعے سٹیک ہولڈرز نے اپنے وعدوں کو مزید مستحکم کرنے اور این ڈی سی کو عملی جامہ پہنانے کا عہد کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے ماحولیاتی وعدے مو ¿ثر پالیسیوں، ٹیکنالوجی اور مالی معاونت کے ذریعے پورے کیے جائیں گے۔