تحریر: ثناہ اللہ گھمن
اسلام آباد میں منعقدہ ایک حالیہ کانفرنس میں ماہرین صحت نے پالیسی کی سطح پر غیر متعدی
بیماریوں خاص طور پر دل، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر سے نمٹنے کے لیے کسی واضع لائحہ عمل کے نہ ہونے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ان بیماریوں کی وجہ سے صحت کو لاحق خطرات کی سنگینی کو واضح طور پر تسلیم کرنے کے باوجود کسی مربوط حکمت عملی کا تعین نہ ہونا ایک قابل ذکر کوتاہی ہے۔
2023 کا سال پاکستان میں ان بیماریوں کے حوالے سے اعداد، شمار عوامی صحت کی دگرگوں صورت حال کی ایک تشویشناک تصویر پیش کرتے ہیں۔ 2021کے انٹرنیشنل زیابیطس اٹلس کے مطابق 3کروڑ 30لاکھ افراد کے زیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے ملک کی حثیت سے پاکستان آبادی کے تناسب سے زیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے لوگوں کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے جہاں 1100ٖٓافراد روزانہ صرف زیابیطس یا اس سے ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ اگر معاشی طور پر دیکھا جائے تو زیابیطس کے علاج پر ہونے والے سالانہ اخراجات کا تخمینہ 2.6ارب امریکی ڈالرز ہے۔ یعنی صحت کے ساتھ ساتھ معاشی طور پر بھی یہ بیماری ہمیں نچوڑ رہی ہے۔
غیر صحت بخش خوراک جیسے چینی، نمک اور چکنائی کے زیادہ استعمال اور ان بیماریوں کے درمیان ایک ناقابل تردید تعلق موجود ہے۔ ان اشیاء کا زیادہ استعمال دل، زیابیطس، موٹاپے، اور ہائی بلڈپریشر کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ہاں میٹھے مشروبات اور الٹرا پراسیسڈ فوڈز کا استعمال ایک فیشن بن چکا ہے اور بلخصوص بچوں اور نوجوانوں میں اس کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے جو ان کی صحت کے لیے ایک چیلنج ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی نئی نسل اور پاکستان کے مستقبل کو صحت کو تباہ کرنے والی ان اشیاء سے بچانے کے لیے کسی واضع حکمت عملی کے ساتھ سامنے آئیں اور معاشرے کی سطع پر ان کے خلاف ایک جہاد کا آغاز کریں۔ اس کے لیے اگر ہم دوسرے ممالک کی طرف دیکھیں کے انہوں نے اس خطرے کے تدارک کا لیے کیسے کام کیا اور اس کے کیا نتائج نکلے۔میٹھے کے زیادہ استعمال کا سب سے بڑا زریعہ میٹھے مشروبات ہیں جن کے ایک چھوٹے گلاس میں 6سے 8چمچ چینی موجود ہوتی ہے۔ اگر ہم میٹھے مشروبات کے استعمال میں کمی کی بات کریں تو دنیا کے 106سے زیادہ ممالک یا خطوں نے اس کے استعمال میں کمی کے لیے ان پر ٹیکس بڑھایا جس کے خاطرخواہ نتائج نکلے اور اس سے نہ صرف بیماریوں کے بوجھ میں کمی ہوئی بلکہ حکومت کو اس سے زیادہ ریوینیو بھی ملا جسے صحت اور نیوٹریشن کے پروگراموں کے لیے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح الٹرا پراسیسڈ فوڈز پر نیوٹیریشن لیبلنگ اور وارننگ سائنز لگانا ایک بہت ہی موئثر پالیسی ایکشن ہے جس سے خریدار کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ جان سکے کہ جو خوراک وہ استعمال کر رہا ہے وہ صحت کے لیے کس قدر نقصاندہ ہے۔