تحریر: عاصمہ حسن
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
آج کل خود کشی کے واقعات بہت زیادہ دیکھنے اور سننے کو مل رہے ہیں ـ آئے دن ایسی دردناک خبر سننے کو ملتی ہے جو دل کو چیر کر رکھ دیتی ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ بنی کہ اپنی جان لینی پڑی ـ پڑھے لکھے’ سمجھدار نوجوان جب ان اقدام کےمُرتکِب ہوتے ہیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے ـ پھر ایسی تعلیم’ شعور اور عقلمندی کا کیا فائدہ جو صحیح اور غلط کی تمیز نہ سکھا سکے ـ
مسائل ہیں ‘ غربت ‘ بے روزگاری’ معاشی بدحالی’ تکلیف’دکھ’ محبت میں دھوکہ’ کاروباری اونچ نیچ ‘ گھریلو حالات’ ناچاقی غرض حالات جیسے بھی ہوں’ وجہ کوئی بھی ہو’ کسی بھی صورت میں خودکشی کا نہیں سوچنا چاہئیے کیونکہ کسی بھی مسئلے کا حل اپنی جان لینا نہیں ہوسکتا اور ہمارا دین ہمیں اس بات کی اجازت بھی نہیں دیتا ہے ـ
کہا جاتا ہے کہ ڈپریشن میں انسان بے قابو ہو جاتا ہے اسے اپنے آپ پر ‘ اپنی سوچ پر حتٰی کہ وہ کیا کر رہا ہے اس پر بھی اختیار نہیں رہتا نوبت اپنی جان لینے تک پہنچ جاتی ہے جو بظاہر سب سے آسان حل لگتا ہے لیکن جان لینا کس قدر مشکل ہے ـ سوئی یا کانٹا چبھ جائے تو کتنی تکلیف ہوتی ہے ـ پھر کیسے کوئی اپنی جان لے سکتا ہے ؟
ڈپریشن کی دو اقسام ہیں ـ ایک قسم وہ ہے جو قدرے عام ہے اور لوگوں کو اس کی سمجھ بھی آتی ہے ـ جس میں انسان غم سے نڈھال ہوتا ہے’ پریشانیوں میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے’ مایوسیوں میں سالہا سال سے گھرا ہوا ہوتا ہے’ اس کو کوئی اپنا نہیں لگتا’ سارے زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہوتا ہے’ احساسِ کمتری اور خود اعتمادی کے فقدان کا شکار ہونے کی بدولت اس کی سوچ محدود ہو چکی ہوتی ہے’ اور پے درپے ناکامیوں کی بدولت خود کو حقیرو بےکار سمجھتا ہے ‘ منفی سوچوں کا مرکز بن جاتا ہے اور اس زَبُوں حالی کا واحد حل اس کو اپنی زندگی کا خاتمہ ہی نظر آتا ہے ـ
قدرت نے ہمیں دماغ عطا کیا ہے ‘ سوچنے ‘سمجھنے اور پرکھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے ‘ ہاتھ و پاؤں کی نعمت عطا کی جس کو بروئے کار لا کر ہم اپنے بُرے سے بُرے حالات بدل سکتے ہیں ـ مسائل اتنے بڑے نہیں ہوتے جتنا بڑا ہم ان کو اپنی سوچ سے بنا لیتے ہیں کیونکہ ہمارے دیکھنے کا زاویہ یا عدسہ ہی غلط ہوتا ہے ـ ہم بھول جاتے ہیں کہ اس کائنات کا خالق و مالک بہت رحیم و کریم اور بے نیاز ہے ـ ہمیں تخلیق کرنے والی ذات ہم سے غافل نہیں ہے ـ وہ مشکل میں ضرور ڈالتا ہے لیکن مشکل کشا بھی وہی ہے ـ جب ایک دَر بند ہوتا ہے تو دوسرا کھل جاتا ہے ـ چلیں فرض کریں کہ وقت بہت کٹھن چل رہا ہے اور سارے در وازےبند مل رہے ہیں تو کیا ہم صبر کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ؟ ہمارا ایمان’ بھروسہ’ اعتقاد سب اتنی جلدی کیسے ڈگمگا سکتا ہے کہ ہم اللہ تعالٰی کی مرضی کے بغیر ( جو وقت مقرر ہے ) اس سے پہلے اس کی عطا کردہ جان جس پر ہمارا رَتی برابر بھی حق نہیں ‘کیسے ختم کر سکتے ہیں ـ ہم ایسا کیوں نہیں سوچتے کہ تمام بند دروازوں کی کنجی اس ذات کے پاس ہے وہی سبب بنانے والا ہے ہم اس کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ‘ اس سے کیوں نہیں مانگتے ـ وہی ہمیں آزماتا ہے دے کر بھی اور لے کر بھی ـ
کچھ مسائل ہمارے خود ساختہ ہوتے ہیں ـ جیسا کہ ہماری عادت ہے ہم لوگوں کی طرف دیکھتے ہیں’ موازنہ کرتے ہیں ‘ حسد کرتے ہیں’ دوسرے لوگوں میں اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہیں’ دوسروں سے اپنی تعریف چاہتے ہیں ‘ بلند و بالا خواب دیکھتے ہیں ‘ لوگوں کی تنقید’ ان کے چبھتے لفظوں کو اپنے دل و دماغ میں بٹھا لیتے ہیں ‘ لوگوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہو جاتے ہیں ـ دراصل ہم اپنی زندگیوں کی باگ دوڑ دوسروں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں اور بس پھر ہم خود کو اپنے ہی ہاتھوں اذیت کا شکار بنا لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ اس گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں ـ اینٹی ڈپریشن’ نیند آور گولیاں کھانا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ سوچ سوچ کر دماغ کی رگیں پھٹنے لگتی ہیں خود ساختہ اداسی ‘ مظلومی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے سکون کی تلاش ہمیں نیند آور گولیوں اور منشیات کا عادی بنا دیتی ہے جو اندر ہی اندر کھا جاتا ہے ـ مسکرانا’ بولنا حتٰی کہ ملنا ‘ جلنا چھوڑ دیتے ہیں ‘ خود ہی سوال بناتے ہیں اور خود ہی ان کے جواب اخذ کر لیتے ہیں ‘ اپنی سوچ میں خود کو مظلمومیت کی انتہا پر لے جاتے ہیں ـ یہ سوچ کہ میری زندگی کا کوئی مقصد نہیں ‘ میں ناکام ہوں ‘ میری زندگی بےکار ہے ‘ تباہ و برباد ہو گئی ہے لہذا مجھے جینے کا کوئی حق نہیں ‘ کسی کو میری پرواہ نہیں تو میں کیوں کروں’ کسی کو میری ضرورت نہیں ‘ کوئی امید باقی نہیں رہی ‘ بل زیادہ آ گیا ہے ‘ مہنگائی بہت ہے’ اخراجات پورے نہیں ہو رہے ‘ اچھے نمبر نہیں آئے’ میرٹ نہیں بنا’ خواب چکنا چور ہو گئے’ والدین ناراض ہیں ‘ غصے میں گھر سے نکال دیا یا گالیاں دے دیں ‘ برا بھلا کہہ دیا’ دوست آگے نکل گئے’ کامیاب ہو گئے’ ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن سکے’ اب تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا بس ایک ہی حل ہے کہ خود کو مار لیا جائے’ یہ دنیا میرے قابل ہی نہیں ہےـ
کیسی بچوں والی سوچ ہےـ کیا کبھی کسی مسئلے کا حل جان لینا ہوتا ہے ؟ کیا ہمارے والدین نے ہماری پرورش اس دن کے لیے کی تھی ‘ قربانیاں دے کر پیٹ کاٹ کر اپنے خوابوں کو دفنا کر ہمیں پروان چڑھایا ‘ کیا اس لیے کہ جب ہم بڑے ہو جائیں ان کا سہارا بن جائیں یا امید جاگ جائے تو ان کو زندگی کو سب سے بڑا دکھ دے دیں ـ اولاد کی تکلیف کیا ہوتی ہے یہ وہی بہتر جانتے ہیں جو والدین بنتے ہیں اور اپنی اولاد کی تکلیف پر تڑپ جاتے ہیں ـ بڑھاپے میں جوان اولاد کا جنازہ اٹھانا کسی قیامت سے کم نہیں ہوتا ـ (طبعی موت اللہ تعالٰی کی طرف سے امتحان ہے ) کیا ہم اپنی زندگی جو کئی خوبصورت رشتوں سے جڑی ہے اس کے خاتمے کے مجاذ ہیں ؟
خوابوں کا کیا ہے نئے دیکھے جا سکتے ہیں ‘ میرٹ نہیں بنا تو اشارہ ہے اس ذات کا جو مالکِ کائنات ہے کہ یہ فیلڈ ہمارے لیے بہتر نہیں ـ ہم نے محنت کی’ سخت محنت کی ‘ اپنی پوری جان لگا دی—-پھر نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیں ـ اگر ویسا نہیں ہوا جیسا ہم چاہتے تھے تو سمجھ جائیں کہ وہ راستہ یا مقصد آپ کا تھا ہی نہیں ـ رب نے کچھ اور سوچا ہوا ہے اور ہو گا وہی جو اس نے سوچا ہوا ہے بس پھر خود کو اس کے حوالے کر دیں ‘ راضی ہو جائیں ـ صبر و تحمل سے کام لیں ‘ جذبات سے نہیں بلکہ حقائق کے پیشِ نظر سوچیں ـ اپنی زندگی ختم کر لینا کسی صورت بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا ـ مایوسی کفر ہے اور مایوس وہ ہوتا ہے جس کا ایمان کمزور ہوتا ہے یعنی ہم مالکِ کائنات کی رحمتوں پر شک کرتے ہیں ـ
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ” پھر فرمایا گیا کہ رزق میں دوں گا ” محنت کرنا’تگ و دو کرنا ہم پر چھوڑا گیا ـ ہماری برادشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنے کا وعدہ کیا گیا ہے تو پھر ہم مایوسی کے مرتکب کیوں اور کیسے ہو سکتے ہیں ـ اس نے کہا مجھ سے مانگو میں عطا کروں گا ـ اگر نہیں مل رہا تو سوچیں کہ کہاں غلطی کر رہے ہیں ‘ اپنے مانگنے کا انداز بدل کر دیکھ لیں ـ صبر کرنے والوں کو اجر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے پھر ہم وہ کام کیوں کرتے ہیں جس سے نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ حرام قرار دیا گیا ہے ـ
مانا کہ حالات ناگزیر ہو گئے ‘ دنیا والوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ‘ گناہ کر بیٹھے ہیں تو معاف کرنے والی ذات اوپر بیٹھی ہے ‘ دنیا معاف نہیں کرے گی لیکن ایک بار دل سے اللہ سے معافی مانگ کر دیکھ لیں وہ کوئی نہ کوئی راستہ نکال دے گا لیکن موت کو گلے لگانے کا حق ہمیں حاصل نہیں ہے کسی بھی صورت میں ـ آج تک سائنس اتنی ترقی نہیں کر سکی کہ زندگی اور موت کا وقت معلوم کر سکے تو پھر جب ہمیں اپنے اگلے لمحے کا نہیں معلوم تو ہم قبل از وقت کیسے موت کو گلے لگا سکتے ہیں ـ
حضرت ایوب علیہ اسلام نے کئی برس شدید بیماری اور معذوری میں گزارے لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا اس یقین کے ساتھ کہ جس نے بیماری دی ہے وہ شفا یاب بھی کرے گا اور وہی ہوا اللہ تعالٰی نے بالآخر شفا نصیب کی ـ ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے پھر وہ نہ پہلے ملے گا ‘ نہ ہی بعد میں’ نہ اس سے زیادہ ملے گا نہ ہی کم ـ
ڈپریشن کی دوسری قسم فنکشنگ ڈپریشن ہے جس میں انسان کے پاس سب کچھ ہوتا ہے ‘ شہرت’ دولت ‘ عیش و آرام’ خاندان’ عزیز و اقارب’ دوست احباب ‘ کامیابیاں ‘ بظاہر وہ خوش بھی نظر آتے ہیں ‘ ہنستے بولتے ہیں لیکن پھر بھی خودکشی کر لیتے ہیں ـ جس کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی ـ دراصل ایسی صورت میں ہم سب کے ساتھ ہوتے ہوئے اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کہیں نہ کہیں خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں ‘ من چاہے شخص کی توجہ نہ ملنا’ ان کا رویہ ‘ ان کی بے رخی مار دیتی ہے ـ لوگوں کی توجہ نہ ملنا’ تعریف نہ ہونا بھی وجہ بن جاتا ہے ـ جب تعریف نہ ہو’ سراہا نہ جائے’ تب بھی انسان اپنی ہی نظر میں وقعت کھو دیتا ہے وہ سوچتا ہے کہ میں اتنا کر رہا ہوں لیکن کسی کو احساس نہیں ‘ پرواہ نہیں تو پھر کیا فائدہ ـ دوسری وجہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے’ ہمدردی لینے کے لیے بھی ایسا اقدام اٹھایا جاتا ہے لیکن اسی میں جان چلی جاتی ہے ـ
اکژ ایسا ہوتا ہے کہ ہم کسی سے اپنے دل کی باتیں کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اور نہ کوئی کسی دوسرے کی بات کو’ جزبات کو دلی یا دماغی کیفیت کو سمجھ سکتا ہے ـ ایسے میں تنہائی کا شکار ہو کر بھی لوگ خود کشی کرتے ہیں ـ
خود کشی کی روک تھام کے لیے ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جن سے جلد نتائج مرتب ہوں جیسا کہ میڈیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ـ ہمیں ایسے ڈرامے ‘ پروگرام نشر کرنے چاہئیے جو آگاہی پیدا کریں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو سکے کہ کیسے انھوں نے ڈپریشن سے باہر آنا ہے ـ علاج کروانا کوئی معیوب بات نہیں ہے ـ
ڈپریشن کے علاج کو سستا اور ہر کسی کی پہنچ میں ہونا چاہئیے تاکہ کسی ماہرِ نفسیات تک پہنچنا اس سے بات کرنا آسان ہو سکے ـ
اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا شخص ہے جو تنہائی اور مسائل کا شکار ہے تو آگے بڑھ کر اس کی مددد کریں اور کچھ نہیں تو اپنا وقت دیں تاکہ وہ اپنے دل کی بات کر کے اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کر سکے ـ
بچوں خاص طور پر نوجوان بچوں کے ساتھ والدین اور اساتذہ کو چاہئیے کہ دوستانہ ماحول قائم کریں اور ان کے ساتھ زیادہ وقت گزاریں تاکہ ان کی زندگی کا علم ہو سکے ـ
دوسروں کی بات کو سنیں ‘ تنقید نہ کریں ‘ کوئی نتیجہ اخذ نہ کریں ‘ تذلیل نہ کریں کبھی مذا ق میں بھی عزتِ نفس کو مجروح نہ کریں کیونکہ معلوم نہیں وہ شخص اُس وقت کس ذہنی کیفیت سے گزر رہا ہو اور آپ کے کہے الفاظ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوں ـ
جب کوئی شخص ڈپریشن کا شکار ہوتا ہے تو اس پر کوئی نصیحت’ کوئی دلیل ‘ کوئی آیت کوئی حوالہ کام نہیں کرتا ہاں اس کو وقت دیں تاکہ وہ اپنے دل کی بات کھل کر ‘کر سکے ـ توجہ دیں اور اس کی بات سنیں کسی نتیجے پر نہ پہنچیں بس اس کو اپنا قیمتی وقت دیں تاکہ اس کو محبت کا ‘ اپنایت کا احساس مل سکے کیا معلوم آپ کے دیے ایک منٹ سے اس کو نئی زندگی مل جائے ـ
منفی رجحانات کی روک تھام اور مثبت سوچ کے کرامات کے بارے میں اوائل عمر سے ہی ذہنی تربیت کی اشد ضرورت ہے اس سلسلے میں والدین’ اساتذہ اور ڈیجیٹل و الیکٹرانک میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا ـ
ہمیں اپنے پروگراموں اور ٹاک شوز کے ذریعہ یہ شعور دینا ہو گا کہ خودکشی کرنا بزدلانہ فعل ہے ہمیں مسائل کا بہادری سے سامنا کرنا چاہئیے ہر مسئلے کا حل موجود ہے ـ محنت’ جستجو’ استقامت ‘ مستقل مزاجی اور صبر کا دامن تھامے رہنا چاہئیے اور کبھی بھی کسی بھی صورت میں اللہ پر اپنا بھروسا کمزور نہیں کرنا چاہئیے ـ صرف ایک لمحہ ہوتا ہے اگر ہم اپنے مضبوط اعصاب کی بدولت اس لمحے سے نکل آئیں یا نکلنا سیکھ لیں تو اپنی عاقبت سنوار سکتے ہیں ـ