بھارت میں تیار کی جانے والی دوائوں سے بیرون ملک متعدد اموات کے بعد عالمی ادارہ صحت کے کہنے پر بھارتی حکومت نے اپنے ہاں دواسازی کے حوالے سے عالمی معیارات اپنانا ناگزیر قرار دے دیا ہے۔
معروف جریدے انڈیا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت اور صحتِ عامہ کے چند دوسرے عالمی اور علاقائی اداروں نے گمبیا، ازبکستان اور کیمرون میں بچوں کی 141 اموات کو بھارت میں تیار کردہ کھانسی کے شربت پینے کا نتیجہ بتایا ہے۔ اس میں کیڑے مار دوائوں والے کیمیکلز پائے گئے تھے۔ عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے الرٹ بھی جاری کیا تھا۔
مرکزی حکومت کے ہفتے کو جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے تمام دواساز اداروں کو عالمی سطح پر تسلیم شدہ معیارات اپنانا ہی پڑیں گے۔
چھوٹے دواساز اداروں نے قرضوں کے بوجھ کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس نوٹیفکیشن پر عمل کے لیے اضافی مہلت مانگی ہے۔
2022 سے واقع ہونے والی اموات سے بھارت کی دواسازی کی صنعت کو دنیا بھر میں شدید دھچکا لگا ہے۔ مرکزی حکومت نے 50 ارب ڈالر کی صنعت کو بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے ہیں تاکہ بھارت میں تیار کردہ دوائوں کی برآمدی مارکیٹ متاثر نہ ہو۔
بھارت کی مرکزی حکومت نے تمام دواساز اداروں کے لیے لازم قرار دیا ہے کہ اپنی دوائوں کو ہر اعتبار سے جامع اور موثر بنانے کے بعد ہی مارکیٹ میں لائیں۔ اداروں کو دوائوں کے آزمائشی استعمال کے بعد ہی ریلیز کرنا بھی لازم ٹھہرایا گیا ہے۔
اگست میں بھارتی وزارتِ صحت نے بتایا کہ اس نے دسمبر 2022 سے تب تک 162 دواساز اداروں کا معائنہ کیا تھا اور یہ پایا گیا تھا کہ خام مال کا جامع تجزیہ نہیں کیا جاتا۔
وزارتِ صحت نے یہ بھی بتایا کہ بھارت میں دواسازی کے 8500 چھوٹے اداروں میں سے ایک چوتھائی سے کم دواسازی کے اس معیار کو اپنائے ہوئے ہیں جو عالمی ادارہ صحت نے طے کر رکھا ہے۔
بھارتی حکومت کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ بڑے دواساز اداروں کو 6 ماہ میں اور چھوٹے اداروں کو 12 میں عالمی معیار کی مکمل پابندی یقینی بنانا ہوگی۔