تحریر: عاصمہ حسن
شادی کا فیصلہ بہت بڑا اور انتہائی اہم ہوتا ہے ـ جس کے لیے بہت ساری اور کئی ضروری باتوں کا خیال رکھا جاتا ہے ‘ اس کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے ـ لیکن سب سے اہم بات جو ہم یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں وہ لڑکا اور لڑکی کی ذہنی ہم آہنگی ہوتی ہے ـ عام طور پر جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہاں لڑکا اور لڑکی کی شادی سے پہلے ملاقات نہیں ہوتی اور اگر ہوتی بھی ہے تو وہ انتہائی مختصر ہوتی ہے جس میں معلوم نہیں ہو پاتا کہ کیا حقیقت ہے اور کیا بناوٹ ہے ـ اکژ بزرگ کہتے ہیں کہ یہی تو اس رشتے کی کی خوبصورتی ہے کہ دونوں فریقین ایک دوسرے سے انجان ہوتے ہیں لیکن پہلے اور آج کے دور میں زمین آسمان کا فرق ہےـ اس وقت سوچ اور ماحول مختلف ہوتا تھا اور خواتین و مرد حضرات کی تربیت بھی مختلف طرز پر ہوتی تھی’ وہ رشتوں کو نبھانا اور عزت و احترام دینا جانتے تھے ـ
اب وقت بہت بدل گیا ہے لہذا ترجیحات بھی تبدیل ہو گئی ہیں ـ سوچنے’ سمجھنے’ رہنے’ سہنے’ برتنے کے اطوار بھی بدل گئے ہیں ‘ لحاظ و شرم’ مروت سب ختم ہو گیا ہے ـ ہمیں بھی وقت کے ساتھ بدلنا چاہئیے ـ جذبات میں آ کر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر فیصلے لینے کی ضرورت ہے ـ خاص طور پر شادی بیاہ کے معاملات ہماری خاص توجہ کے حامل ہیں کیونکہ یہ صرف دو لوگوں کی زندگیوں کا سوال نہیں ہوتا بلکہ اس میں دو خاندان ملوث ہوتے ہیں ـ اس تعلق کا اثر سب سے زیادہ آنے والے بچوں کی زندگیوں اور شخصیت پر ہوتا ہے ـ
کہنے کو تو زندگی چار دن کی ہوتی ہے لیکن جینا پڑے تو بہت طویل ہو تی ہے ـ دن رات’ ماہ و سال اپنی زندگی کے خوبصورت ایام کسی دوسرے کو دینا آسان نہیں ہوتا ـ کسی بھی لڑکی کی زندگی میں شامل ہونے والا مرد( شوہر) اس لڑکی کی زندگی ‘ خوشی ‘ صحت و تندرستی اور دماغی حالت پر اثرانداز ہوتا ہے ـ آج کل ایک ٹی وی ڈرامہ چل رہا ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے ایک مرد اپنی سوچ’ ذہنیت’ دماغی فتور اور رویے سے ایک خوبصورت لڑکی جو زندگی سے بھرپور ہوتی ہے ‘ کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے ـ دن رات اس کو اپنے لفظوں کے نشتر چبھو کر کم تر ثابت کرتا ہے’ ہر کام میں نقص نکالتا ہے’ اسے پاگل اور کم عقل ہونے کے لقب سے نوازتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ لڑکی اپنی تمام تر رعنائی ‘ اعتماد سب کچھ کھو دیتی ہے ‘ خود کو بے کار’ ناکارہ اور بوجھ سمجھنے لگتی ہے ـ ہر وقت کی تذلیل ‘ طعنے’ نیچا دکھانے کی کوشش اور خود کو برتر’ و اعلٰی ثابت کرنے کے چکر میں وہ ایک شخص اچھی بھلی لڑکی کو ذہنی مریض بنا دیتا ہے ـ
ڈرامے کو ڈرامائی رنگ تو دیا گیا ہے لیکن یہ حقیقت سے کہیں قریب بھی ہے ـ لڑکی پر ماں ‘باپ کی نصیحتوں کا دباؤ ہوتا ہے پھر یہ کہ نئے گھر میں بَسنا ہے’ سسرال والوں کا دل جیتنا ہے ‘ خاوند جیسا بھی ہو تم نے زبان نہیں کھولنی’ جی حضوری کرنی ہے’ خدمت کرنی ہے’ گھر کو بنانا ہے’ رشتے کو توڑنے کا سوچنا بھی نہیں ہے’ اس گھر سے جنازہ ہی اُٹھے’ لوگ کیا کہیں گے وغیرہ وغیرہ جیسے الفاظ ذہن میں گھولے جاتے ہیں ـ اچھے پڑھے لکھے اور بااثر خاندان والوں کی بھی یہی سوچ ہوتی ہے کہ بیٹی چاہے جو مرضی برداشت کرے’ اپنا آپ قربان کر دے لیکن لوگ کیا کہیں گے اِس ڈر سے بیٹی کو اُس جہنم میں رہنے کی تلقین کی جاتی ہے حتٰی کہ مرد دوسری شادی کر لے اور دوسری بیوی کو لے کر اُسی گھر میں آجائے تب بھی یہی کہتے ہیں کہ بچوں کی خاطر برداشت کرو’ اپنی جگہ خالی نہ چھوڑو ‘ اپنا گھر نہ چھوڑو وغیرہ وغیرہ ـ
یہ بات درست ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتیں گھروں میں ہوتی رہتی ہیں ـ اُن کو برداشت اور نظرانداز کر کے ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے ـ رشتوں کو بنانا’ جوڑ کر رکھنا ایک عورت کا ہی کام ہے’ پھر نئے لوگوں کے ساتھ نئےگھر میں ایڈجسٹ ہونے’ اس گھر کے طور واطوار اپنانے میں وقت لگتا ہے اور پُرسکون زندگی کے لیے بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن جب بات حد سے بڑھ جائے’ اپنی ذات کی نفی کرنے یا خودکشی کا راستہ اختیار کرنے سے بہتر ہے کہ علیحدگی اختیار کر لی جائے ـ اب یہ سب کہنا بہت آسان ہے لیکن کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ـ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس پر گزرتی ہے وہی بہتر جانتا ہے ـ
الگ ہونے کا فیصلہ آسان نہیں ہوتا ـ اس میں کئی پہلو شامل ہوتے ہیں ـ یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ایک عورت معاشی لحاظ سے مضبوط ہے یا نہیں ‘ اس کے والدین اُس کا بوجھ اٹھا سکیں گے یا نہیں (حالانکہ اپنی ہی اولاد بوجھ نہیں ہوتی لیکن جب شادی کر دیتے ہیں تو وہی بیٹی بوجھ سمجھی جاتی ہے ) ‘ بچوں کا کیا ہو گا’ بچے کس کے ساتھ رہیں گے ایسے کئی سوالات ہوتے ہیں جو کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے سوچے جاتے ہیں ـ آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ معاشی لحاظ سے مضبوط اور پڑھی لکھی عورتوں میں طلاق کی شرح زیادہ ہے ـ یہ تاثر بالکل غلط ہے کیونکہ کوئی بھی عورت بلاوجہ اپنا گھر برباد نہیں کرتی ـ اگر وہ اتنا بڑا فیصلہ لیتی ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی سنگین وجہ ہوتی ہے ـ پھر چونکہ وہ پڑھی لکھی اور باشعور ہوتی ہے’ اپنے حقوق سے واقف ہوتی ہے ‘ وہ ظلم برداشت نہیں کرتی’ اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اور ٹاکسک مرد اور ماحول میں رہنے سے بہتر ہے کہ الگ ہو جائے تاکہ دونوں سکون سے زندگی گزار سکیں ـ لیکن پھر وہی بات ہے کہ یہ سب اتنا آسان نہیں ہوتا بہت سارے معاملات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا’ سب سے اہم بچے ہوتے ہیں جن پر ماں باپ کی روز کی لڑائی کا بہت برا اور منفی اثر پڑتا ہے اور اگر والدین الگ ہو جائیں تو ان کی شخصیت ٹوٹ کر بکھر جاتی ہے کیونکہ ان کو ماں اور باپ دونوں کا پیار چاہئیے ہوتا ہے ـ تربیت میں بھی دونوں کا اہم کردار ہوتا ہے ـ
عام طور پر ہم آئے دن سنتے ہیں کہ شوبز کی دنیا کے فلاں نے علیحدگی اختیار کر لی’ فلاں نے دوسری اور تیسری شادی کر لی ‘ شوبز کی دنیا حقیقی دنیا سے بہت مختلف ہے’ ان کے مسائل اور ہیں جبکہ ایک عام عورت اور اس کے گھر کے مسائل مختلف ہوتے ہیں ‘ اُس شوبز کی دنیا میں میاں بیوی باآسانی الگ ہو جاتے ہیں ‘ ان کے بچوں کی کسٹڈی کے مسائل بھی حل ہوجاتے ہیں’ بچے دوسرے باپ یا ماں کے ساتھ سیٹ ہو جاتے ہیں یا پھر دور سے ہمیں لگتا ہے کہ سب بہت اچھا ہے’ فینٹسی لگتی ہے لہٰذا عام سوچ کی لڑکیاں جو ناول اور ڈراموں کی دنیا میں رہتی ہیں وہ ان اداکاراؤں کو آئیڈیلائیز کر لیتی ہیں اور فراموش کر دیا جاتا ہےکہ ان کی سوسائٹی ‘ رہن سہن ‘ حالات واقعات بہت مختلف ہیں لہذا کبھی بھی ان ڈراموں یا ان اداکاراؤں کی پیروی نہیں کرنی چاہییےـ نہ زندگی سب کی ایک جیسی ہوتی ہے اور نہ ہی مسائل و وسائل یکساں ہوتے ہیں ـ دور سے چیزیں بہت خوبصورت لگتی ہیں لیکن جب ہم قریب جاتے ہیں تب مسائل کا ادراک ہوتا ہے ـ
شادی کا فیصلہ جذبات میں آ کر نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر کرنا چاہئیے کیونکہ یہ وہ فیصلہ ہوتا ہے جو کئی زندگیوں کو بدل دیتا ہے ـ سب سے پہلے لڑکا اور لڑکی کے ضروری ٹیسٹ کروانے چاہئیے یہ بہت اہم ہے جس پر آج کل بات بھی ہو رہی ہے اور ہونی بھی چاہئیے تاکہ عوام میں شعور پیدا ہو اور اس کو برا نہ سمجھا جائے ـ یہ ٹیسٹ مستقبل میں بچوں کو کئی ذہنی و جسمانی بیماریوں سے بچا سکتے ہیں ـ
پھر لڑکا اور لڑکی کی ذہنی ہم آہنگی’ پسند و ناپسند ‘ عادات اور سوچ کو دیکھا جائے ان میں زمین و آسمان کا فرق نہ ہو کیونکہ اِس فرق کے ساتھ ساری عمر نہیں گزاری جا سکتی ـ
یہ دیکھا جائے کہ لڑکا کتنا محنتی اور زندگی میں کتنا پُرجوش ہے ‘ اس کے مقاصد کیا ہیں ‘ کیا وہ آپ کی بیٹی کے خوابوں کو سمجھ سکے گا ( آپ نے بیٹی کو تعلیم دلوائی ہے اور اس کے مستقبل کے حوالے سے خواب بھی ہوں گے ـ ایسا نہ ہو کہ اس کے خوابوں کو چکنا چور کر دے یا اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دے ) ‘ یا ان خوابوں کو حاصل کرنے میں اس کی مدد کرے گا ؟ ان دونوں کا زندگی کے بارے میں فلسفہ کیا ہے ؟ ان کے اہداف کیا ہیں ؟
جس گھر میں لڑکی بیاہی جا رہی ہے وہاں دیکھا جائے کہ کس کا حکم چلتا ہے’ کون فیصلے لیتا ہے ‘ مردوں کا کیا کردار ہے ‘ کیونکہ جس گھر میں عورتیں ہر فیصلہ لیتی ہیں ‘ بہنوں کا راج ہوتا ہے ‘ حتٰی کہ بہنوں کی شادیوں کے باوجود گھر کا ہر فیصلہ ان کی اجازت اور مرضی سے ہوتا ہے اس گھر میں اپنی بیٹی کو نہ بھیجا جائے ـ گھر وہی مضبوط اور خوشحال ہوتے ہیں جن کے مرد مضبوط ہوتے ہیں ‘ جہاں فیصلہ مرد کا چلتا ہے لیکن اس میں گھر کی عورتوں کو فیصلے میں شامل کیا جاتا ہے’ مرضی پوچھی جاتی ہے’ ان کی رائے کو سراہا جاتا ہے ‘ ان کو عزت و احترام دیا جاتا ہے ‘ انسان کو انسان سمجھا جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر بیٹی اور بہو میں فرق نہیں کیا جاتا ـ
مرد کو کانوں کا کچا نہیں ہونا چاہئیے ‘ اس میں اتنی عقل’ سمجھ بوجھ ہونی چاہئیے کہ وہ حالات کو ‘باتوں کو پرکھ سکے’ اپنی بیوی کی عزت کروا سکے’ اس کے ساتھ کھڑا ہو سکے’ غلط کو غلط صحیح کو صحیح کہہ سکے’ اپنے رشتوں میں توازن برقرار رکھ سکے ـ مرد وہی ہوتا ہے جو اپنے والدین’ بہن بھائیوں’ بیوی’ بچوں اور دیگر رشتوں میں اعتدال رکھ سکے’ یکساں اہمیت دے سکے’ اس کا جھکاؤ ایک طرف نہ ہو ‘ ایک طرف جھکاؤ مسائل کو جنم دیتا ہے ‘ مرد وہی ہوتا ہے جو سب کے سامنے اپنی بیوی کی تذلیل اور بے عزتی کرنے کی بجائے اس کی غلطی پر الگ سے بیٹھ کر سمجھائے’ کچھ مان لے’ کچھ منوا لے’ پیار کی زبان میں بہت دَم ہوتا ہے ـ جب ہم ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں ‘ عزت کا رشتہ رکھتے ہیں ‘ ایک دوسرے کا مان رکھتے ہیں تب ہی رشتوں میں چاشنی برقرار رہتی ہے’ تالی کبھی بھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی’ اسی طرح زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لیے کئی دفعہ ناہموار راستوں سے بھی گزرنا پڑتا ہے’ جھٹکے بھی لگتے ہیں ‘ لیکن جب لائف پارٹنر اچھا مل جائے تو راستہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو کٹ ہی جاتا ہے ـ
مرد سُپِرِیَر نہیں ہوتا لیکن سُوپَر مین ضرور ہوتا ہے جس کے ساتھ عورت خود کو محفوظ تصور کرتی ہے’ کچھ بھی ہو جائے وہ اپنے مجاذی خدا کہی ہی طرف دیکھتی ہے’ اچھے شوہر کا ساتھ عورت کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے ـ عورت کی خوشی’ اعتماد اور سکون اس کی زندگی میں شامل ہونے والے مرد پر ہی منحصر ہوتا ہے ـ جب ایک عورت مضبوط’ پر اعتماد اور مکمل ہوتی ہے تبھی وہ گھر کو جنت بناتی ہے اور پھر وہی اعتماد’ خوشی و سکون اور مکمل پن اولاد کی شخصیت میں بھی جھلکتا ہے ـ لہٰذا زندگی کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کریں تاکہ بعد میں پچھتانا نہ پڑے اور کوئی کٹھن فیصلہ نہ لینا پڑےـ