تحریر:ڈاکٹر عمران آفتاب
لیفٹننٹ جنرل (ر) مصطفی کمال اکبر—ایک عظیم استاد، پاکستان کے چوٹی کے ماہر امراض چشم، اور پاکستان آرمی کے سرجن جنرل کے طور پر خدمات انجام دینے والی انتہائی قابل احترام شخصیت—کی وفات نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے لیے ایک عظیم نقصان ہے۔ ان کی زندگی بے شمار خوبیوں اور یادگار لمحات سے مرصع تھی۔ وہ پاکستان کا قومی سرمایہ تھے ۔ ایم بی بی ایس کے دوران ہمیں ان کی شاگردی میں رہنے کا شرف حاصل رہا۔ ان کا انداز تدریس نہایت دلچسپ اور منفرد تھا۔ وہ ہمیشہ مختصر مگر جامع بات کرتے، کسی کو بور نہیں ہونے دیتے تھے۔ اکثر تقاریب میں وہ مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعو ہوتے ، مگر آخر میں جب انہیں تقریب کے لیے بلایا جاتا تو بمشکل دو سے تین منٹ میں کوئی شگفتہ بات کر کے یا چٹکلا سنا کر سٹیج خالی کر دیا کرتے تھے۔ کہتے تھے کہ اتنی لمبی تقاریر سن سن کر سامعین بھوک سے نڈھال ہو جاتے ہیں۔ مگر ہمارے مقررین کی تقریر ختم ہی نہیں ہوتی۔ یو ٹیوب پر ان کی مختلف مواقع پر کی جانے والی تقاریر سے قارئین ان کی بذلہ سنجی کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں۔
ان کی ایک انتہائی خوبصورت عادت جو انہیں دیگر معززین سے ممتاز کرتی تھی ، وہ کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے۔ ہمیشہ حاضرین کے لیے کوئی نہ کوئی کارآمد تحفہ ساتھ لاتے تھے۔ اس سال وطیم میڈیکل کالج کی تقریب میں انہوں نے طالبات کو ہیئر کلپ اور طلباء کو چشمے کے ہولڈر گفٹ کیے۔ یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ان کی زندگی کی سادگی اور ہر موقع کو یادگار بنانے کی خواہش کی غمازی کرتی تھیں۔پاکستان اور ایشیا بھر میں وہ خون کے عطیات دینے کے حوالے سے بھی مشہور تھے۔ حیرت انگیز طور پر، انہوں نے ایک سو ساٹھ سے زائد بار خون کا عطیہ دیا، جو ایک ریکارڈ ہے۔ ان کی یہ قربانی اور خدمت انسانیت کے لیے ان کے بے لوث جذبے کی بہترین مثال ہے۔
ان کی سادگی کا ایک اور پہلو ان کی چھوٹی گاڑی سے جھلکتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے، “میں سادہ آدمی ہوں، اور گھر میں سب سے چھوٹی گاڑی میری ہے۔” میں نے ان سے ایک بار مذاق میں کہا کہ شاید فوج کے تمام تھری اسٹار جنرلز میں بھی سب سے چھوٹی گاڑی آپ کی ہے۔ یہ ان کی عاجزی اور زندگی کی سادگی کا ایک خوبصورت مظہر تھا۔وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے، “میں سادہ آدمی ہوں، اور گھر میں سب سے چھوٹی گاڑی میری ہے۔” میں نے ان سے ایک بار مذاق میں کہا کہ شاید فوج کے تمام تھری اسٹار جنرلز میں بھی سب سے چھوٹی گاڑی آپ کی ہے۔ یہ ان کی عاجزی اور زندگی کی سادگی کا ایک خوبصورت مظہر تھا۔لیفٹننٹ جنرل (ر) مصطفی کمال اکبر کی شخصیت کا ایک اور دلچسپ پہلو ان کا ہلکا پھلکا مزاح تھا، جو ہر ملاقات میں شامل ہوتا تھا۔ وہ اپنی باتوں سے سننے والوں کو نہ صرف قہقہے لگانے پر مجبور کرتے بلکہ گہری حکمت سے بھی روشناس کرواتے۔
ایک مرتبہ انہوں نے میڈیکل کالج کے لڑکوں کے بارے میں ایک دلچسپ تبصرہ کیا، کہتے تھے:جو لڑکا میڈیکل کالج میں سب سے لوفر ہوتا ہے، وہ آخری عمر میں مولوی بن جاتا ہے۔ اور جو لڑکا سب سے زیادہ مذہبی ہوتا ہے، وہ آخری عمر میں لوفر ہو جاتا ہے۔”ان کا یہ جملہ ہمیشہ محفل کو قہقہوں میں بدل دیتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ ان کی گہری بصیرت اور زندگی کے تجربات کا بھی عکاس تھا۔ وہ زندگی کے تضادات اور انسانی فطرت کو بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے، جس سے ان کی باتیں سننے والے کے دل و دماغ میں نقش ہو جاتی تھیں۔
ان کی یہ خصوصیات ان کی ذات کو نہ صرف ایک عظیم استاد اور معالج کے طور پر ممتاز کرتی تھیں، بلکہ ایک خوشگوار اور محبت بھرے انسان کے طور پر بھی یادگار بناتی تھیں۔لیفٹننٹ جنرل (ر) مصطفی کمال اکبر کی وفات سے ہم نے ایک عظیم انسان، بہترین استاد، اور عظیم سرجن کو کھو دیا ہے۔ ان کی یادیں ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گی اور ان کی تعلیمات آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ رہیں گی۔