تحریر:طارق محمود غوری
پاک وطن کو برسوں سے انسانی حقوق کے مسلسل چیلنجز کا سامنا رہا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی سے لے کر صنفی مساوات تک، پاک وطن میں انسانی حقوق کی صورت حال میں ہر سال اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، جو اکثر سیاسی، سماجی اور معاشی ترقی کی شکل اختیار کرتا ہے۔ پاکستان میں سال 2024 میں بعض شعبوں میں مثبت اقدامات اور دیگر شعبوں میں مسلسل چیلنجز کا امتزاج رہا۔ اہم مسائل کی جڑیں سیاسی عدم استحکام، تشدد، امتیازی سلوک اور بنیادی آزادیوں پر پابندیوں میں رہیں۔
2024 میں پاک وطن میں اظہار رائے اور پریس کی آزادی ایک اہم مسئلہ رہا۔ صحافیوں، انسانی حقوق کے محافظوں اور کارکنوں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ متعدد رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو سنسرشپ کا سامنا کرنا پڑا، یا تو براہ راست حکومتی دباؤ یا غیر ریاستی عناصر کی دھمکیوں کے ذریعے۔ انویسٹیگیٹو جرنلسٹ ، خاص طور پر بدعنوانی اور طاقتور اداروں کی سرگرمیوں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کو اکثر نشانہ بنایا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں آزادانہ رپورٹنگ کو جبری طور پر خاموش کروا دیا گیا
سنہ 2024 میں حکومت نے متعدد نئے قوانین کا اعلان کیا تھا جن کے بارے میں کچھ ناقدین کا کہنا تھا کہ اس سے میڈیا کی آزادی میں مزید کمی آسکتی ہے۔ ان میں ڈیجیٹل قوانین شامل تھے جو آن لائن پلیٹ فارم اور سوشل میڈیا کو متاثر کرتے تھے۔ حکومت، طاقتور اداروں حقیقی پالیسی سازوں یا عدلیہ پر تنقید کرنے والے مواد کو اکثر ہٹا دیا جاتا تھا اور کچھ صحافیوں کو احتجاج یا ہتک عزت سے متعلق مختلف قوانین کے تحت ہراسانی یا گرفتاری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وفاقی دارالحکومت سے لے کر بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں ؛خیبر پختون خواہ کہ کچھ انتہائی بائیں بازوں کامذہبی رجحان رکھنے والی سیاسی جماعتوں مسلح گروپس نے نہ صرف صحافیوں کو دھمکیاں دی؛ اغوا کر کے شدیدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا کچھ کو قتل کر دیا گیا ۔سب سے اہم بات گزرے سال میں سوشل میڈیا سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے اور ان لائن صحافت مختلف سیاسی جماعتوں افراد کی ان لائن سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کے لیے انٹرنیٹ پر بہت زیادہ پابندیاں لگائی گئی جس سے کہ ان لائن کام کرنے والے افراد اور اداروں کو مالی طور پربہت نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ۔
پاک وطن میں مذہبی اقلیتوں کو تاریخی طور پر اپنے عقیدے پر آزادانہ طور پر عمل کرنے میں چیلنجز کا سامنا رہا ہے اور 2024 بھی اس سے مختلف نہیں تھا۔ مسیحیوں،ہندوؤں،سکھوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو امتیازی سلوک، تشدد اور جبری تبدیلی مذہب کا سامنا رہا۔ توہین مذہب کے قوانین، جن میں سخت سزائیں دی جاتی ہیں، یہ بات مشاہدے اور تحقیق سے روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ افراد اپنی باہمی رنجش اور کدورت کے لیے استعمال کرتے ہیں مذہبی اقلیت کہ افراد پر تکفیر کے الزام کی صورت میں اکثر ان کی آبادیوں کو ہی جلا دیا جاتا ہے اور گھروں کو مسمار بھی کر دیا جاتا ہے اور بہت سارے واقعات میں ہجوم کو تشدد پر اکسایا جاتا ہے مساجد سے ان کے خلاف اعلانات کیے جاتے ہیں اکثر واقعات میں افراد کو مارنے کے بعد جلا دیا گیا اور ان کے گھروں کو آگ بھی لگا دی گئی۔ ایسا ہی ایک کیس سرگودھا میں نظیر مسیح کا بھی ہے جس کو ہجوم نے بہت زیادہ تشدد کا نشانہ بنانے کے بعداس کے گھرکو لوٹ لیا اس کی چھوٹے سے جوتے بنانے کے کارخانے کو بھی لوٹ کر آگ لگا دی گئی نظیرمسیح کچھ دن ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملا لیکن اس سب صورتحال میں انتہائی المناک بات یہ ہے کہ نظیر مسیح کے اور اس کے گھر پر حملہ کرنے اور اکسانے والے افراد جن کی کے ویڈیوز بھی موجود تھیں کو عدالت نے پہلے ہی پیشی پر باعزت بری کر دیا ایسے واقعات سے عدم تحفظ کی شکار مذہبی اقلیتوں میں عدم تحفظ مزید بڑھ جاتا ہےاور وہ خود کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ سمجھتی ہیں۔
سال 2024 میں جبری تبدیلی مذہب کے متعدد واقعات ہوئے خاص طور پر اقلیتی برادریوں کی نوجوان کم عمر لڑکیاں اس کاشکار ہوئیں ۔ تاہم، ریاست نے توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال روکنے اورجبری مذہبی تبدیلی روک تھام کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات اور قانون سازی نہیں کی ۔
اگرکوئی شخص تکفیر کا غلط الزام لگائے تو اس پر بھی تکفیر کا کیس بننا چاہیے جو کہ بہت سے مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے کام کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کا بھی مطالبہ ہے اس جانب حکومت نے کوئی پیشرفت نہیں کی، دوسری جانب انتہائی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی نام نہاد سیاسی جماعت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو کہ نہ صرف سوشل میڈیا پر بلکہ اپنے جلسوں میں بھی کھلم کھلا ایسے افراد کو قتل کرنے کے لیے اور سر تن سے جدا کرنے کے لیے نعرے بلند کرتے ہوئے نظر اتے ہیں اوران پرریاست /حکومت کی کوئی گرفت نہیں ۔ جس وجہ سے نہ صرف مذہبی اقلیتوں کے افراد بلکہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور پاک وطن کو جناح کا پاکستان ایک روشن خیال اور ترقی پسند پاکستان کے خواہاں افراد بھی خود کو غیر محفوظ اورعدم تحفظ کا شکارمحسوس کرتے ہیں.