زندگی آسان نہیں ہوتی بلکہ اسے آسان بنایا جاتا ہے

تحریر: عاصمہ حسن
زندگی میں کچھ بھی پرفیکٹ یعنی کامل نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اسے بنانا پڑتا ہے ـ بالکل اسی طرح کسی کی بھی زندگی آسان نہیں ہوتی اس کو آسان بنایا جاتا ہے ـ ہم اپنی سوچ اور اپنے عمل سے کئی معاملات کو بہتر انداز میں حل کر سکتے ہیں لہذا صبر و تحمل’ برداشت اور نظر انداز کرنے کی عادت کو اپنانا بہت ضروری ہوتا ہے ـ
زندگی کے امور اور روزمرہ کے دیگر معمولات اپنی نوعیت میں پیچیدہ ہوتے ہیں ـ کسی کے لیے بھی زندگی گزارنا آسان نہیں ہوتا ـ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی جگہ ‘محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنے حالات و واقعات کے مطابق تگ و دو کرنا پڑتی ہے ـ
ایک دن میں ہم کئی کام کرتے ہیں پھر اگر یہ سوچا جائے یا توقع کی جائے کہ تمام کام ہماری مرضی سے سرانجام پائیں گے تو ایسا ہر گز ممکن نہیں ہے ـ حالات ہمارے قابو یا کنٹرول میں نہیں ہوتے ہاں ہماری سوچ ہمارے اپنے اختیار میں ضرور ہوتی ہے ـ جب ہم مثبت سوچتے ہیں تو ہمارے ذہن و دماغ اور جسمانی صحت پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری کارکردگی میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے ـ اس کے برعکس جب ہم منفی سوچتے ہیں ‘ صرف مسائل کے بارے میں غور کرتے ہیں ‘ ان کو خود پر حاوی کر لیتے ہیں ‘ اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ نہیں کرتے’ ہر وقت حالات اور قسمت کو کوستے رہتے ہیں تو ہم ایک ہی نقطہ پر اڑ جاتے ہیں یا ہماری سوچ منجمد ہو جاتی ہے یا ہم خود کو ایک دائرے میں محدود کر لیتے ہیں پھر اس سے باہر نہیں نکل پاتے ـ جب تک ہم اپنے اردگرد اُس بے ساختہ لکیر کو عبور نہیں کر پاتے ہم خود کو مظلوم اور بے چارہ ہی تصور کرتے ہیں اس کے علاوہ کچھ کر ہی نہیں پاتے اور نتیجہ میں وہی بے بسی’ مظلومیت’ ناکامی’ ڈر’ خوف اور فرسٹریشن ہی ہمارا مقدر بنتی ہے جو ہمیں اپنے جال میں جکڑ لیتی ہے ـ
نامساعد حالات میں ہمت ہارنے کی بجائے ہمیں چاہئیے کہ ان مسائل کو کھلے دل سے قبول کریں کیونکہ ہمارے پاس کوئی متبادل راہ نہیں ہوتی تو پھر ان کو دیکھنے کا زاویہ بدل لیں ـ اپنی ہمت اور طاقت کو یکجا رکھیں ‘ اپنی صلاحیتیں اور قوت ان مسائل کے حل پر لگائیں نہ کہ جلنے اور کڑھنے پر اپنی توانائیاں ضائع کی جائیں ـ
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بات معمولی ہوتی ہے لیکن اس کا حل ہمارے ذہن میں نہیں آتا یا ہماری سوچ اس وقت کام نہیں کرتی ‘ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی سوچ اور علم و معلومات کے مطابق بہتر فیصلہ کرتے ہیں لیکن اس کے نتائج صحیح نہیں آتے یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ـ ایسی صورتحال میں ہمیں کسی تجربہ کار ساتھی سے مشورہ کر لینا چاہئیے اور سکون سے بیٹھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہئیے کہ کہاں ہم سے غلطی سرزد ہوئی ہے یا کہاں پر ہم بہتری لا سکتے ہیں ـ پریشان ہو کر’ غصہ کر کے ہم اپنا ہی نقصان کرتے ہیں ـ تھک گئے ہیں تو تھوڑا آرام کر لیں ‘ دوبارہ سے حکمتِ عملی تیار کریں پھر پوری قوت سے زور لگا دیں ـ ناکامی کا سامنا ہو گیا ‘ ٹھوکر لگ گئی’ گر گئے ‘ اپنا نقصان کر بیٹھے ہیں تو کوئی بات نہیں اٹھیں ‘ ہمت اور توانائی کو یکجا کریں منہ ہاتھ دھوئیں ‘ ہاتھ اور کپڑے جھاڑیں اور پھر سے نئے محاظ پر نکل کھڑے ہوں ـ
یہی کامیاب زندگی کا راز ہے ـ مسائل کو خود پر حاوی نہ ہونے دیں ـ درپیش مسائل اور حالات کا مقابلہ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے کرنا چاہئیے تاکہ غلطی کے امکانات کو ممکنہ طور پر کم کیا جا سکے اس کے علاوہ جذبات اور جلد بازی میں ہم غلط فیصلہ کر بیٹھتے ہیں جس کا خمیازہ برحال ہمیں بھگتنا ہی پڑتا ہے ـ غلطیاں کرنا فطری عمل ہے لیکن ان کو دہرانا نہیں چاہئیے بلکہ ان تجربات سے سیکھتے ہوئے مستقبل میں بہتر حکمتِ عملی تیار کرنی چاہئیے ـ جب تک ہم ہاتھ پاؤں نہیں ماریں گے’ تجربات نہیں کریں گے ہمیں کیسے علم ہو گا کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے ـ
اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ضروری نہیں ‘ اگر ایک تجربہ غلط ثابت ہوا ہے تو دوسرا بھی ویسا ہی ہو گا ایسا ہرگز نہیں ہوتا ـ ہمیں لوگوں پر اعتماد کرنا پڑتا ہے کیونکہ کوئی بھی کام ہم اکیلے سرانجام نہیں دے سکتے اور نہ ہی تن تنہا زندگی گزار سکتے ہیں ـ
ہم بیٹھ کر خیالی پلاؤ بنا کر’ صرف سوچ کریا صرف خواب دیکھ کر کچھ حاصل نہیں کر سکتے بلکہ زندگی گزارنے اور بہتر انداز میں گزارنے کی کنجی محنت میں پوشیدہ ہے ـ ہماری محنت’ لگن’ استقامت’ مناسب حکمتِ عملی’ مستقل مزاجی اور درست سمت میں پیش قدمی ہی کامیابی کی راہ پر گامزن کرتی ہے ـ ناکامی کے ڈر کو مات دینا’ مشکل اور نامساعد حالات میں فیصلہ لینا اور پہلا قدم اٹھانا ہی دراصل پہلی کامیابی ہے ـ کامیابی کسی کو بھی تھالی میں سج کر نہیں ملتی ـ
ایسا ہو سکتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ان حالات کا یا ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا جو ایک عام آدمی کو کرنا پڑتا ہے کیونکہ ان کو وسائل (کاروبار’ زمین و جائیدادیں ) باپ ‘ دادا کی طرف سے وراثت میں مل جاتی ہیں لیکن سوچیں کہ اگر وہ محنت نہ کریں اور صرف بیٹھ کر کھائیں تو بالآخر ایک دن وہ سڑک پر آ جائیں گے ـ
اکثریت خُود بَرداختَہ (سیلف میڈ) ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کو محنت کی عادت ہوتی ہے اور وہ اس کی عظمت کو سمجھتے ہیں ـ خواب کیا ہوتے ہیں ‘ منزل کو پانے کے لیے دوڑ دھوپ کرنا پھر تھک کر چور ہونا لیکن امید کا دامن نہ چھوڑنا ہی ان کی شخصیت میں نکھار لاتا ہے ‘ ان کو کندن بناتا ہے ـ
ہمیشہ یاد رکھیں یہ قدرت کا قانون ہے کہ وہ اپنے پیارے لوگوں کو ہی آزمائش میں ڈالتا ہے اس ذات کو ہمارا مانگنا بہت پسند ہے ـ جب مشکل آتی ہے تو ہمارا واحد سہارا وہی ذات ہوتی ہے ـ وہ مالک و کائنات چاہتا ہے کہ ہم اس مشکل سے گزر کر’ اس آزمائش کو پار کر کے خود کو تراشیں ‘ اپنی تلاش کا سفر مکمل کریں ‘ اس کے آگے گڑگڑائیں ‘ دعا ئیں مانگیں’ اس کی طرف لوٹیں اور اس کا قرب حاصل کر سکیں اور اس کا قرب صرف انہی کو حاصل ہوتا ہے جسے وہ چاہتا ہے ـ
اکثر لوگ مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں اور منفی سوچ کی وجہ سے اپنا ایمان’ اعتقاد اور بھروسا کھو دیتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے میں خودکشی کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے ـ دراصل ہم لوگوں کو دیکھتے ہیں بظاہر وہ بہت خوش اور مطمئن نظر آتے ہیں ـ ہم ان کی زندگی ‘ آسائشوں اور کامیابیوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں اور موازنہ شروع کر دیتے ہیں ‘ کہیں اندر ہی اندر بغض ‘ کینہ اور حسد پال لیتے ہیں ـ اسی موازنہ میں ہمیں اپنا آپ کم یاب اور ناکام نظر آتا ہے ‘ اپنی تکالیف بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ہم دوسروں کے مسائل ‘ درد اور حالات سے ناواقف ہوتے ہیں اور صرف چیزوں کو اپنے عدسے اور زاویے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں لیکن اندر کی کہانی کا علم خالقِ کائنات کو ہے یا اُس کو ہے جس پر گزرتی ہے ـ
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ کسی کی بھی زندگی چاہے وہ کسی بھی مقام پر ہو کامل ‘ مکمل یا پرفیکٹ نہیں ہوتی ہمیں سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں اور مسلسل محنت سے اسے اپنے مطابق ڈھالنا پڑتا ہے یا پھر خود اس کے مطابق ڈھلنا پڑتا ہے تاکہ زندگی کو بہتر انداز میں گزارا جا سکے ـ
کامیاب وہ ہوتے ہیں جو مسائل کو چیلنج سمجھتے ہیں اور حالات کو موافق بنانے کے لیے ناکامی کے ڈر و خوف کو مات دے کر تجربات کرتے ہیں مشکل سے مشکل فیصلے لیتے ہیں اور پھر ان تجربات کی روشنی میں سیکھتے ہیں اور یہ سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ عمل رک گیا تو زندگی رک جائے گی ـ
وقت بہت بڑا استاد ہوتا ہے ہمیں وہ سب سکھاتا ہے جو والدین’ کوئی کتاب یا استاد نہیں سکھا سکتا اور وقت کی خاصیت ہے کہ یہ گزر جاتا ہے اب چاہے اچھا ہو یا برا ہو لیکن اپنے نقش چھوڑ جاتا ہے ـ بس کوشش کریں کہ وقت کے ساتھ چلیں’ اپنے اعصاب پر قابو رکھیں ‘صبر و تحمل سے کام لیں اور دوسروں کی زندگیوں میں آسانیاں بانٹنے والے بنیں ـ

تازہ ترین

November 20, 2024

ممتاز روحانی شخصیت پیر حکیم صوفی محمد شفیع سچے عاشق رسول ۖ اور محب وطن تھے، صاحبزادہ پیر محمد حسان حسیب الرحمن

November 20, 2024

سود سے پاک کاروبار،میزان بینک کے زیراہتمام اسلامک بینکنگ آگاہی سیمینار

November 20, 2024

اسپیکر قومی اسمبلی کی ملی خیل میں سیکیورٹی چیک پوسٹ پر خوارج کے حملے کی شدید مذمت

November 20, 2024

پی ٹی آئی کا دھرنا یا احتجاج خیبر پختونخواہ حکومت سے سپانسرڈ ہوتا ہے،اختیار ولی خان

November 20, 2024

صدر مملکت آصف علی زرداری کا بنوں میں خوارج دہشتگردوں کے حملے میں 12 جوانوں کی شہادت پر افسوس کا اظہار

ویڈیو

December 14, 2023

انیق احمد سےعراقی سفیر حامد عباس لفتہ کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات سمیت مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق

December 8, 2023

اسلام آباد، ورکرز ویلفیئر فنڈز کی جانب سے پریس بریفنگ کااہتمام

October 7, 2023

افتخار درانی کے وکیل کی تحریک انصاف کے رہنما کی بازیابی کے حوالے سے گفتگو

October 7, 2023

افغان وزیرخارجہ کا بلاول بھٹو نے استقبال کیا

October 7, 2023

پشاور میں سینکڑوں افراد بجلی بلوں میں اضافے پر سڑکوں پر نکل آئی

کالم

October 14, 2024

شہر میں اک چراغ تھا ، نا رہا

October 11, 2024

“اب کے مار ” تحریر ڈاکٹر عمران آفتاب

October 2, 2024

فیصل کریم کنڈی کہ کاوشوں سے خیبرپختونخوا کی قربانیوں کی عالمی پزیرائی

September 17, 2024

اے ٹی ایم آئی ایس سے نئے امن مشن میں منتقلی کو درپیش چیلنجز ،ایتھوپیا کا نقطہ نظر

August 20, 2024

ایتھو پیا،سیاحت کے عالمی افق پر ابھرتا ہوا ستارہ