لاہور:فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سرکل لاہور نے چھاپہ مارکر خاتون انسانی اسمگلر کو گرفتار کر لیا۔
ایف آئی اے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وفاقی وزیر داخلہ محسن رضا نقوی کی ہدایات پر انسانی اسمگلرز کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے۔
ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ ملزمہ کو چھاپہ مار کارروائی میں لاہور سے گرفتار کیا گیا، گرفتار ملزمہ نے شہری کو ملازمت کا جھانسہ دے کر لاکھوں روپے بٹورے۔
بیان میں کیا گیا کہ ملزمہ نے شکایت کنندہ کو ترکیہ بھجوانے کے نام پر 19 لاکھ روپے بٹورے اور ملزمہ متاثرہ شہری کو بھجوانے میں ناکام رہی، ملزمہ رقم وصول کرنے کے بعد روپوش ہو گئی تھی۔
ترجمان ایف آئی اے نے کہا کہ ملزمہ کو گرفتار کر کے تفتیش کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ مارچ میں ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے میں ملوث اسمگلروں نے ایران کے راستے غیرقانونی طور پر یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے پاکستانی تارکین وطن کو بھی اپنا ہدف بنالیا جنہیں وہ تاوان کے لیے اغوا کرنے لگے ہیں۔
پاکستان میں اسمگلر اپنے ایجنٹوں کی مدد سے یورپ پہنچنے کے خواہشمند تارکین وطن کو اپنے قبضے میں لے کر ان پر تشدد کرتے ہیں، ان کی ویڈیو فلم بناتے ہیں اور ان کے عزیزواقارب کو بھیج دیتے ہیں تاکہ ان کی بحفاظت رہائی کے لیے تاوان کا مطالبہ کرسکیں۔
گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایسے 3 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 10 کے قریب نوجوانوں کو ان گینگز نے تشدد کا نشانہ بنایا اور جیلوں میں ڈال دیا، ان میں سے کچھ نے رہائی کے لیے رقم ادا کی جبکہ کچھ کو ایرانی پولیس نے تہران میں پاکستانی سفارت خانے کے تعاون سے رہا کر دیا۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے کہا تھا کہ غیرقانونی تارکین وطن کے سفر کا انتظام کرنے اور بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے بیرون ملک انہیں اغوا کرلینے کے خطرناک واقعات میں حالیہ چند روز کے دوران تیزی آگئی ہے۔
گزشتہ ماہ حافظ آباد کا رہائشی محمد حسنین اپنے کزن فیصل اور پڑوسی انور کے ساتھ یورپ پہنچنے کے لیے بذریعہ سڑک ایران روانہ ہوا، انہوں نے یہ سفر ٹریول ایجنٹ محمد سرور کے ساتھ اصل ویزوں پر سفر کیا جس نے انہیں ایران سے ترکی کے راستے یونان لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔
تہران پہنچنے پر اُس ٹریول ایجنٹ (محمد سرور) نے تینوں کو یورپ بھیجنے کے لیے ہر ایک سے 2500 ڈالر مانگے، تینوں نے رقم کے لیے پاکستان میں اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا، اہل خانہ مطلوبہ رقم جمع کرنے میں ناکام رہے تو سرور انہیں تہران میں ایک 3 منزلہ مکان میں اس بہانے لے گیا کہ وہ چند سو روپے میں ان کے سفر کا بندوبست کروادے گا۔
محمد حسنین نے ’ڈان‘ کو بتایا تھا کہ جب ہم اُس مکان میں پہنچے تو وہاں موجود لوگوں نے ہمیں قابو کرلیا اور ہمیں ایک چھوٹے سے کمرے میں بند کر دیا، 24 گھنٹے کے بعد فیس ماسک پہنے ہوئے تقریباً 3 سے 4 افراد نے ہمیں پانی پلایا اور اس کے بعد انہوں نے ہم پر وحشیانہ تشدد کیا، انہوں نے تشدد کی ویڈیو بھی بنائی اور اسے پاکستان میں ہمارے گھر والوں کو بھیجا اور ہمیں آزاد کرنے کے لیے ہر ایک کے گھر والوں سے 5 ہزار ڈالر کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے بتایا تھا کہ قید کے دوران وہ ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے، جب ہمارے اہل خانہ نے اغوا کاروں کو بتایا کہ وہ رقم کا بندوبست نہیں کر سکے تو وہ مزید ظالم ہو گئے، انہوں نے فیصل کا کان کاٹ دیا، انور کا ہاتھ جلا دیا اور میرے پاؤں میں کیل ٹھونک دی۔
حسنین نے مزید بتایا تھا کہ وہ ہمیں تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے بجلی کے جھٹکے لگاتے اور ویڈیوز ہمارے اہل خانہ کو بھیجتے جنہوں نے آخر کار اُن کے ایک مقرر کردہ شخص کو ’ایزی پیسہ‘ کے ذریعے 3 لاکھ روپے تاوان ادا کردیا، بعد میں ان اغوا کاروں نے ہمیں الگ کمرے میں ڈال دیا۔
دریں اثنا حسنین کے اہل خانہ نے اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن سے رابطہ کیا جس نے تہران میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطہ کیا، پاکستانی مشن نے یہ معاملہ ایرانی پولیس کے سامنے اٹھایا اور پس پردہ تفتیش کے لیے گجرات میں ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا۔
اس سے پہلے کہ ایرانی پولیس پاکستانی سفیر محمد مدثر ٹیپو کی فراہم کردہ معلومات پر مجرموں کے ٹھکانے پر چھاپہ مارتی، حسنین اپنے اغوا کاروں کی گرفت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا اور ایک پاکستانی ٹیکسی ڈرائیور نے اسے اپنے گھر والوں سے رابطہ کرنے میں مدد کی۔
حسنین نے کہا تھا کہ 22 دن کی قید کے بعد مجھے فرار ہونے کا موقع ملا، میرے اغوا کاروں کو یقین تھا کہ میرے پاؤں میں کیلیں ٹھوکی ہوئی ہیں اس لیے میں چل نہیں سکوں گا، ایک دن انہوں نے میرے کمرے کا دروازہ باہر سے بند نہیں کیا اور میں فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، سڑک پر مجھے ایک پاکستانی ڈرائیور ملا جس نے میری فیملی سے رابطہ قائم کرنے میں میری مدد کی جنہوں نے اُس سے درخواست کی کہ وہ مجھے پاکستانی سفارت خانے چھوڑ دے۔
ایرانی پولیس نے فیصل اور انور کو بازیاب کر کے پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کر دیا تھا، سفارت خانے نے انہیں علاج کے لیے ہسپتال منتقل کر دیاتھا۔
تہران میں ایف آئی اے کے رابطہ افسر آفتاب احمد بٹ نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ’ڈان‘ کو بتایا تھا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پاکستانی انسانی اسمگلروں کا گروہ کچھ افغانوں اور ایرانیوں کے ساتھ مل کر اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہے، وہ ممکنہ غیر قانونی تارکین وطن کو لالچ دے کر ایران لے جاتے ہیں اور ان کے اہل خانہ سے بھاری تاوان وصول کرنے کے لیے انہیں اغوا کرلیتے ہیں۔