راولپنڈی کے علاقے چاندنی چوک کے رہائشی محمد عثمان نے اپنے ایک عزیز کی شادی کی تقریب کے لیے بڑے چاؤ سے نئی شیروانی کرائے پر لی۔ وہ جب کچھ دن بعد شیروانی لانے کے لیے دکان پر گئے تو دکان دار نے ان کو پرانی شیروانی تھما دی۔ وہ اس پر خاموش نہیں رہے بلکہ انہوں نے صارف عدالت میں دکان دار کے خلاف پانچ لاکھ روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کر دیا۔
محمد عثمان نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے ایک عزیر کی گذشتہ ماہ شادی ہونا طے پائی تھی۔ دلہا کے لیے شیروانی کی خریداری کی غرض سے راولپنڈی کے مشہور راجہ بازار میں واقع پرانا قلعہ، جو عروسی ملبوسات کی خرید وفروخت کے لیے جانا جاتا ہے، وہاں پہنچے اور مخلتف دکانوں سے ہوتے ہوئے ایک دکان پر پہنچے تو میرے عزیز کو شیروانی پسند آ گئی۔
انہوں نے معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے مذکورہ دکان پر ایک شیروانی پسند کی اور دکاندار سے طے پایا کہ اسی طرح کی نئی شیروانی ہمیں کرائے پر چاہیے۔ دکاندار نے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے باقاعدہ رسید دی۔
محمد عثمان کے مطابق جب وہ اپنے عزیز کے ساتھ متعلقہ دکان سے شیروانی لینے گئے تو ہمیں ایک بیگ میں شیروانی تھما دی گئی۔ جب شیروانی کھول کر دیکھی تو اُس میں وہ نکھار نہیں تھا جو نئی شیروانی میں ہوتا ہے۔ سوال کرنے پر معلوم ہوا کہ دکاندار نے نئی کی بجائے پرانی شیروانی تیار کی ہے۔
’دکاندار نے ہم سے کیا ہوا وعدہ توڑا تو کنزیومر پروٹیکشن کونسل سے رابطہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پرانی شیروانی ہمیں شادی سے ایک دن پہلے دی گئی۔ ہم نے دکاندار کو رسید دکھا کر یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ اپنے کیے گئے وعدے سے پھر رہے ہیں مگر وہ بہانے بنانے لگا۔ ہمارے پاس وقت کم وقت تھا چنانچہ شادی پر پرانی شیروانی ہی پہننا پڑی۔
دکاندار پر دائر کیس کی راولپنڈی کی سیشن کورٹ کچھ دنوں تک سماعت شروع کرے گی۔
محمد عثمان نے کنزیومر پروٹیکشن کونسل راولپنڈی سے رجوع کیا اور متعلقہ دکاندار کو لیگل نوٹس بھجوایا۔
15 دن گزر جانے کے بعد بھی دکاندار نے نوٹس کا جواب نہیں دیا جس کے بعد اب سیشن جج کنزیومر پروٹیکشن قوانین کے تحت کیس کی سماعت کریں گے۔
ڈائریکٹوریٹ آف کنزیومر پروٹیکشن کونسل راولپنڈی (پنجاب) کے فوکل پرسن ادریس رندھاوا نے بتایا کہ ’کنزیومر پروٹیکشن کونسل دو طرح سے کیسز کو فالو کرتی ہے۔ زائد المعیاد اشیا ہوں یا مصنوعات کے فائدے اور نقصانات کے بارے میں غلط معلومات دی گئی ہوں یا نرخ اور گاہک کو دی گئی رسید غلط ہو تو ایسی شکایات ڈپٹی کمشنر آفس بھجوائی جاتی ہیں۔‘
متعلقہ ڈپٹی کمشنر آفس کنزیومر رائٹس سیکشن 11،16,18 اور 19 کے تحت متعلقہ دکانداروں کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ 50 ہزار روپے تک کا جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔
ادریس رندھاوا نے بتایا کہ ’صارف کو اگر غیر معیاری اشیا، خدمات اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو ہم معاملہ کنزیومر کورٹ کو بھیج دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہشہری شکایات کی صورت میں کنزیومر پروٹیکشن کونسل کو درخواست دے سکتے ہیں جس کے بعد کونسل متعلقہ تاجر کو لیگل نوٹس بھیجتی ہے اگر لیگل نوٹس کے دوران ہی مسئلہ حل ہو جائے تو معاملہ آگے نہیں بھیجا جاتا۔
فوکل پرسن کنزیومر پروٹیکشن کونسل کے مطابق شہریوں سے کوئی فیس نہیں لی جاتی۔ ملک بھر میں کنزیومر رائٹس کے لیے قائم کنزیومر پروٹیکشن کونسلز شہری کی درخواست پر اپنے اخراجات سے کارروائی عمل میں لاتی ہیں۔
کنزیومر پروٹیکشن کونسل کے فوکل پرسن کے مطابق سال میں تقریباً 250 درخواستیں راولپنڈی کونسل میں آتی ہیں جبکہ کورٹس میں براہِ راست دائر کیے گئے ایسے کیسز کی تعداد 500 کے لگ بھگ ہو گی۔
کنزیومر کورٹ سے رجوع کرنے والے شہری محمد عثمان سمجھتے ہیں کہ ’شہریوں کو اس متعلق مزید آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرا کیس دائر کرنے کا مقصد بھی لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ اگر وہ بھی ایسی صورتحال سے دوچار ہوں تو وہ کنزیومر کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔