پشاور: سنی اتحادکونسل کومخصوص نشستیں نہ ملنےکےکیس میں عدالت نےرٹ پٹیشنزمستردکردیں۔
سنی اتحادکونسل کومخصوص نشستیں نہ ملنےکےکیس میں عدالت نےمحفوظ فیصلہ سنادیا۔
سنی اتحادکونسل کی خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں کےلئےدائردرخواستوں پرسماعت پشاورہائی کورٹ کےجسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجربنچ نےکی، جسٹس اعجازانور،جسٹس ایس ایم عتیق شاہ،جسٹس شکیل احمداورجسٹس سیدارشدعلی بھی بنچ میں شامل ہے۔
سنی اتحادکونسل کی طرف سےبیرسٹرعلی ظفرعدالت میں پیش ہوئے۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل علی ظفرکےدلائل
بیزسٹرعلی ظفر13 جنوری کو پاکستان تحریک انصاف سے بلے کا نشان لیا گیا۔بلے کا نشان لئے جانےکے باوجود ہمارے 292 امیدوار کامیاب ہوئے۔قومی اسمبلی کے 91 میں سے 86،پنجاب کے 107 کے پی کے کے 90 اراکین نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی۔
بیرسٹرعلی ظفرنےکہاکچھ سوال لارجر بینچ نے چھوڑے ہیں جس پر عدالت کو اسسٹ کرنے کی کوشش کرونگا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان چھینا اور اسی عدالت نے واپس بحال کردیا ۔سپریم کورٹ نے اس عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کےحمایت یافتہ امیدوار سامنے آئے۔تمام ارکان پی ٹی آئی کی چھتری تلے کامیاب ہوئے،پھر سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے ۔ سنی اتحاد کونسل آرٹیکل 106 تھری ایم کے تحت مخصوص نشستوں کا اہل ہے ۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل کامزیدکہناتھاکہ ہماری توقع تھی کہ مخصوص نشستیں مل جائیں گی، الیکشن کمیشن پابند تھا کہ سنی اتحاد کونسل کو 78 سیٹیں دیتا،لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔
عدالت نےاستفسارکیاکہ کیا ہم پورے ملک کی مخصوص نشستوں کا معاملہ سن رہے ہیں۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل علی ظفرنےکہا نہیں صرف قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا کا آپ سن رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کے خلاف چھ مختلف درخواستیں سامنے آئیں، جن میں تین میں موقف اختیار کئے گئے ،اعتراض یہ تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے الیکشن نہیں لڑا، مخصوص نشستوں کی لسٹ فراہم نہیں کی، الیکشن کمیشن کو بتایا گیا ، سنی اتحاد کونسل کو سیٹیں نہ دی جائیں ،باقی دیگر پارٹیوں کو مخصوص نشستیں دی جائیں۔
بیرسٹرعلی ظفرکادلائل میں کہناتھاکہ سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں قبضہ گروپس کو دی گئیں۔
عدالت نےکہاکہ قبضہ گروپس نہ کہیں،انکو سیٹیں تو الیکشن کمیشن نے دی ہیں ،کل سوال آیا کہ کیا قومی اسمبلی نشستوں پر اس کورٹ کا اختیار بنتا ہے؟
بیرسٹرعلی ظفرکےدلائل اس پر بات کرنا چاہتا ہوں،چھ سوالات ہیں جو عدالت نے اٹھائے وہ بہت اہم ہیں ،آئین میں پولیٹیکل جسٹس کا ذکر واضح لکھا گیا ہے، ہر وہ شہری جو سرکاری ملازم نہ ہو وہ سیاسی جماعت بناسکتا ہے یا کسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرسکتا ہے، آرٹیکل 72 کہتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو کئی حقوق حاصل ہیں،سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لے سکتی ہیں حکومت بنا سکتی ہیں، مخصوص نشستیں حاصل کرسکتی ہیں۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل علی ظفر کےدلائل اگر کسی پارٹی کو الیکشن سے نکالا گیا تو یہ آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہوگی،جیسا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں سے دور رکھا گیا ، الیکشن کمیشن پارلیمانی پارٹی اور پولیٹیکل پارٹی میں فرق کرنے میں کنفیوز ہے۔
دوران دلائل بیرسٹر علی ظفر نے عدالت سے پانی پینے کی اجازت مانگی۔
عدالت نےکہاکہ آپ مسافر ہیں اور مسافر کو پانی پینے کی اجازت ہے۔
بیرسٹرعلی ظفر گلا خراب ہے، پانی نہیں لونگا تو گلا بند ہو جائے گا۔
عدالت نے بیرسٹر علی ظفر کو پانی پینے کی اجازت دےدی۔
جسٹس اشتیاق نےریمارکس دئیےکہ شعبان کا کیس رمضان میں لیکر آئے۔ سنی اتحاد کونسل پولیٹیکل پارٹی کیسے بنی ؟ پارٹی نے جنرل الیکشن میں کوئی سیٹ نہیں جیتی۔
سنی اتحادکونسل کےوکیل علی ظفرکےدلائل سنی اتحاد کونسل نےالیکشن میں حصہ نہیں لیا کوئی سیٹ نہیں جیتی لیکن بطور سیاسی پارٹی موجود ہے،اگر کسی پارٹی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا،10 آزاد امیدوار اس پارٹی میں آجاتے ہیں تو تعداد 10 ہی ہوگی۔
عدالت کےریمارکس اگر آپ کے پاس ایک سیٹ بھی نہیں تو آپ کو آزاد امیدوار جوائن نہیں کرسکتے ،پولیٹیکل پارٹی انتخابات میں حصہ لے گی اس میں جیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
علی ظفرنےکہاکہ آئین میں یہ پابندی نہیں کہ پولیٹیکل پارٹی سیٹ جیتے یا نہ جیتے ۔
عدالت نےکہاکہ کیا آپ نے سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوکر پی ٹی آئی کا کیس کمزور نہیں کیا ؟
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہااس کی دو وجوہات تھیں ہمارے پاس انتخابی نشان نہیں تھا ، الیکشن کمیشن نے آنٹرا پارٹی انتخابات پر پی ٹی آئی کو ڈس کوالیفائی کیا۔
عدالت نےکہا 100 سے زائد سیاسی جماعتیں ہیں پاکستان میں کل تو ہر کوئی بطور آزاد امیدوار الیکشن لڑے گا،کامیاب ہونے کے بعد پھر وہ بھی مخصوص نشستیں مانگے گا۔مخصوص نشستیں کیوں دوسری جماعتوں کو نہ دی جائیں ۔
بیرسٹرعلی ظفرنےکہا پہلی بار عوام نے شخصیات کو ووٹ دیا ہے، جس نے جتنی سیٹیں جیتیں انکو اس تناسب سے سیٹیں ملتی ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ انکی سیٹیں بڑھا دی جائیں۔
جسٹس اشتیاق ابراہیم نےکہااگر یہ سیٹیں نہیں دی گئیں تو پارلیمنٹ پوری نہیں ہوگی؟
سنی اتحادکونسل کےوکیل نےکہا اسلئے ہم کہتے ہیں کہ آپ آئین کی ایسی تشریح کریں کہ یہ خلا پیدا نہ ہو،یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ لسٹ دوبارہ نہیں دے سکتے، یہ کہنا کہ آپ لسٹ اب نہیں دے سکتے یہ غلط ہے۔
عدالت نےکہاجو پارٹیاں الیکشن میں حصہ نہیں لیتی ان کا حق نہیں بنتا ،زیرو کے ساتھ جو بھی جمع کریں وہ زیرو ہی ہوتا ہے۔
بیرسٹرعلی ظفرنےکہا آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ لسٹ کب دینی ہے، بہتر سمجھ یہ ہوگی کہ انتخابات کے بعد مخصوص نشستوں کا الیکشن شیڈول آجائے،سیکشن 104 کہتا ہے کہ ایک دن مخصوص ہوگا، یہ نہیں کب ہوگا،دوسری لسٹ پر کوئی پابندی نہیں کہ آپ لسٹ نہیں دے سکتے،104 سیکشن ہم سے ہمارا آئینی حق نہیں چھین رہا، الیکشن کمیشن کو کیا مسئلہ ہے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے میں ، مخصوص نشستیں دینے میں کونسی قانون کی خلاف ورزی ہو جائے گی، نا زیادہ اور نہ ہی کم ہم اپنا حق مانگ رہے ہیں۔
سنی اتحادکونسل کے بیرسٹر علی ظفر کے دلائل مکمل ہوگئے۔