اسلام آباد (ویب ڈیسک) فیض آباد دھرنا کمیشن نے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کرنے والے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ انٹرنل سیکورٹی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور دھرنا ختم ہونے پر مظاہرین میں پیسے تقسیم کرتے ویڈیوز میں دکھائی دینے والے اس وقت کے ڈی جی رینجرز پنجاب میجر جنرل نوید اظہر حیات کو کلین چٹ دیدی ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ فیض حمید کو سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے مصالحت کار کے طور پر معاہدہ دستخط کرنا تھا کیونکہ ان کے پاس اس وقت کے آئی ایس آئی چیف اور آرمی چیف کی اجازت موجود تھی‘ کمیشن نے دھرنے کی ذمہ داری اس وقت پنجاب میں قائم شہباز شریف حکومت پر عائدکردی تاہم شہباز شریف کا نام لکھنے سے گریز کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب حکومت نے ووٹ بینک بچانے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہ کی جو قابل تعریف نہیں‘ یہ ذمہ داری سے انحراف اور مس کنڈکٹ ہے لہٰذا قصورواروں کے خلاف کاروائی کی جائے، کمیشن نے سفارش کی کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے اور انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دئیے جائیں۔
کمیشن نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں احتجاج اور مظاہروں سے نمٹنے کے لیے ایک مشترکہ مخصوص فورس قائم کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔ اس نمائندے کو کمیشن رپورٹ پڑھنے اور رپورٹ کے کچھ حصوں کی نقل حاصل ہوئی ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ کسی بھی سیاسی و سرکاری شخصیت نے کسی ایجنسی یا ریاستی ادارے کے دھرنے سے متعلق کوئی بیان یا ثبوت نہیں دیا لہٰذا کمیشن دھرنے سے کسی ادارے یا ریاستی اہلکار کا تحریک لبیک کے دھرنے کو منظم کرنا ثابت نہیں کرسکا۔ کمیشن نے ملک میں انٹیلی جینس اداروں کے بارے میں قانون سازی کی سفارش بھی کی ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ فوج ریاست کا مقدس ادارہ ہے اسے تنقید سے بچانے کے لیے سول امور میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے اس سے ادارے پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔ کمیشن نے انٹرنل سیکورٹی کے حوالے سے آئی بی کو لیڈ رول دینے کی سفارش بھی کی ہے جبکہ اس وقت کے آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز کو کمیشن کے سامنے غلط بیانی پر مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کرنے پر تادیبی کارروائی کا ذکر کیا گیا ہے۔
کمیشن کو ذمہ داروں کو نامزد کرنے کا کہا گیا تھا تاہم کمیشن نے زمہ داروں کا نام لینے کی بجائے وفاق اور پنجاب کو رپورٹ کی روشنی میں متعلقہ لوگوں کے خلاف کاروائی کا کہا ہے۔ جیونیوز/ دی نیوز/جنگ کے اس نمائندے نے کم وبیش 243 صفحات رپورٹ دیکھی۔ جس کی نقل کابینہ ڈویژن اور سپریم کورٹ میں موصول ہوچکی ہے۔
رپورٹ میں تحریک لبیک پاکستان کے خلاف سال 2017 میں دھرنے کے سلسلے میں درج مقدمات کو واپس بحال کرنے کا کہا گیا ہے۔ پولیس سروس کے خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اختر علی شاہ کمیشن کے سربراہ تھے جبکہ سابق آئی جی طاہر عالم اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے سینئر حاضر سروس افسر خوشحال خان کو کمیشن کا رکن بنایا گیا تھا۔
کمیشن کی رپورٹ کے ساتھ لگے انیکسچر میں وزیراعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، آئی بی کے موجودہ سربراہ فواد اسدالله، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید، آئی بی کے سابق سربراہ آفتاب سلطان، سابق آئی جی پنجاب پولیس عارف نواز، سابق ڈی جی رینجرز نوید اظہر حیات اور دیگر کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پنجاب حکومت کی طرف سے ووٹ بینک بچانے کے لیے مظاہرین کے خلاف کارروائی نہ کی جو قابل تعریف نہیں۔ یہ ذمہ داری سے انحراف اور کنڈکٹ مس ہے لہٰذا قصورواروں کے خلاف کاروائی کی جائے۔ کمیشن نے کہا کہ دہشت گردوں کیساتھ معاہدے نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس مسئلے کا مستقل حل ہونا چاہیے۔
کمیشن نے سفارش کی کہ رینجرز اور ایف سی کو واپس سرحدوں پر بھیجا جائے اور انہیں شہری علاقوں میں آنے سے روکا جائے ان پر خرچ ہونے والے وسائل پولیس کو دئیے جائیں۔ کمیشن نے اس وقت تحریک لبیک یارسول اللہ سے معاہدے کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے یہ معاہدے مسئلے کا عارضی حل ہوتے ہیں مستقل نہیں۔
کمشن نے کہا کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں کے لیے کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے لہٰذا ضروری قانون سازی اوررولز و ایس او پیز کی ضرورت ہے۔ کمیشن نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا اور یہ بھی سفارش کی کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم کے انتظامی اختیارات کے بارے میں فیصلے پر ازسرنو غور کرئے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ فیڈرل حکومت میں وفاقی سیکرٹری کیساتھ وفاقی وزیر کو بھی مالی و انتظامی اختیار دیا جائے۔ وفاق میں چیف کمشنر کو خود مختار کیا جائے۔