اسلام آباد(پریس ریلیز) قائداعظم یونیورسٹی کی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے صدر اور نائب صدر فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن (فپواسا) پروفیسر ڈاکٹر مظہر اقبال نے قائداعظم یونیورسٹی کی اے ایس اے کی ایگزیکٹو کونسل کے اجلاس کے دوران کہا کہ حکومت نے اعلی تعلیم کے لیے بجٹ میں وہی پرانے 65 بلین روپے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ فنڈز 2018 میں مختص کیے گئے اور اس کے بعد اب تک اس فنڈ میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھر میں اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشنز یوم سیاہ منا رہی ہیں اور تعلیم کے فنڈز بڑھانے کے لیے احتجاج کر رہی ہیں۔ ان کامزید کہنا تھا کہ فنانس ڈویژن نے ہائر ایجوکیشن کا بجٹ 25 ارب روپے کم کر کے 24 مئی 2024 کو خط کے ذریعے اس بجٹ کو وفاقی اداروں تک محدود کر دیا۔
مگر اب اک نیا خط جاری کرتے ہوئے فنانس ڈویژن نے 24 مئی کے خط کو ختم کرکے اعلی تعلیم کے لیے پرانا بجٹ یعنی 65 بلین روپے بحال کردیا ہے جبکہ ساتھ صوبوں کو بھی اسی گرانٹ میں پیسے دینے کا پابند کردیا ہے جو کہ اعلی تعلیم کے ساتھ مذاق لگتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پپیلز پارٹی الیکشن مہم کے دوران اپنے کیے گئے وعدے بھول گئے ہیں جو انہوں نے تعلیمی بجٹ کو بالترتیب جی ڈی پی کے 4 اور 5 فیصد تک بڑھانے کے لیے کیے تھے۔جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ 2021 سے حکومت نے تنخواہوں میں تقریباً 60 فیصد اضافہ کیا ہے لیکن ٹینور ٹریک سسٹم (TTS) فیکلٹی ہمیشہ اس اضافے سے محروم رہتی ہے۔ غیر ملکی اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو TTS کے سسٹم کے تحت اس بات کا یقین دلایا گیا کہ ہر تین سال بعد ان کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ اعلی تعلیم میں باہر سے پڑھے پروفیسرز کو لایا گیا اور اعلی تعلیم کے میدان میں پاکستانی جامعات کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی بھی ملی مگر ٹی ٹی ایس فیکلٹی کی تنخواہوں کو سالانہ بجٹ کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً ان کی تنخواہیں رک گئیں۔ جس کی وجہ سے ٹی ٹی ایس اور بی پی ایس کے پے پیکج میں کوئی فرق نہیں رہا۔ پچھلی حکومتوں نے اساتذہ کے لئے ٹیکس چھوٹ کو 75 فیصد سے کم کر کے 25 فیصد کر دیا۔ دوسری طرف، بی پی ایس فیکلٹی ایک ہی پوسٹ پر پھنسی ہوئی ہے اور بروقت ترقیاں اور مناسب کیریئر کے راستے کی دستیابی کے سنگین چیلنجز ہیں۔قائداعظم یونیورسٹی (QAU)، اعلیٰ تعلیم کے اداروں میں سے صف اول کی یونیورسٹی ہے جو کیو ایس کی عالمی درجہ بندی میں 315ویں نمبر پر ہے، اس کے پاس جز وقتی تدریس، تحقیق، میڈیکل، طلباء کی فیلوشپس، تشخیص کے زیر التواء بلوں کی ادائیگی کے لیے کوئی فنڈز نہیں ہیں۔ مزید جون 2024 کے بعد یونیورسٹی کے پاس تنخواہوں کے لیے پیسے موجود نہیں۔ یونیورسٹیوں کو کارکردگی کی بنیاد پر گرانٹس فراہم کرنے کے مسلم لیگ ن کے منشور کے مطابق قائداعظم یونیورسٹی 5 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکج کی مستحق ہے۔ اگر اعلیٰ حکام نے بروقت مداخلت نہ کی اور یونیورسٹی کے لیے مکمل مالی تعاون نہ کی تو ہم جلد ہی اس ادارے کی عزت اور سالمیت کھو دیں گے۔ قائداعظم یونیورسٹی ایکڈیمک سٹاف ایسوسی ایشن نے وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف اور صدر آصف علی زرداری (QAU کے چانسلر) سے درخواست کی ہے کہ وہ اس معاملے کو فوری طور پر نوٹس لیں۔ مزید تعلیم کے لیے 500 بلین روپے اور وفاقی تعلیمی اداروں کے کے لیے 100 بلین روپے حکومت موجودہ مالی سال میں مختص کرے۔ ٹی ٹی ایس کی تنخواہوں میں 60 فیصد اضافہ کرکے اسے سالانہ بجٹ سے منسلک کیا جائے اور موجودہ بجٹ میں 75 فیصد ٹیکس چھوٹ بھی بحال کی جائے۔ TTS کے لیے ایک مناسب سروس سٹرکچر اور BPS فیکلٹی کے لیے پروموشن پالیسی کو فوری طور پر متعارف کرایا جائے تاکہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ساکھ اور اس میں پڑھانے والے استادوں میں پھیلتی مایوسی کی لہر کو ختم کیا جاسکے۔