اسلام آباد(بیورو رپورٹ)پاکستان غیر متعدی بیماریوں کے شدید بحران سے دوچار ہے، لاکھوں افراد ذیابیطس، موٹاپے، دل کی بیماری، گردے کی بیماریوں اور بعض قسم کے کینسر میں مبتلا ہیں۔ پاکستان میں 60 فیصد اموات ان غیر متعدی بیماریوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ میٹھے مشروبات کا استعمال جن میں کاربونیٹیڈ مشروبات اور جوسز شامل ہیں بیماریوں کی اس ہنگامی صورتحال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میٹھے مشروبات کے ایک چھوٹے گلاس میں 7 سے 8 چائے کے چمچ چینی ہوتی ہے۔ ان مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ ان کی کھپت کو کم کرنے کے لیے پہلا اور سب سے مؤثر واضح پالیسی اختیار ہے۔ علمائے کرام کی ہمارے معاشرے میں بڑی عزت اور تکریم ہے۔ وہ عوام کو میٹھے مشروبات کے صحت کو ہونے والے نقصانا ت کے بارے میں آگائی دیں اور حکومت سے مطالبہ کریں گے کہ صحت عامہ کو بچانے کے لیے ان مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ کیا جائے۔ یہ بات ماہرین صحت نے اسلام آباد کے مقامی ہوٹل میں PANAH کے زیر اہتمام مذہبی رہنماؤں کے ساتھ ایک تقریب میں کہی۔گلوبل ہیلتھ ایڈوکیسی انکیوبیٹر (GHAI) کے کنٹری کوآرڈینیٹر جناب منور حسین نے کہا کہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ میٹھے مشروبات موٹاپا، ٹائپ ٹو ذیابیطس، دل کی بیماریوں، مختلف کینسر، اور جگر اور گردے کی بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ پاکستان میں یہ بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ انٹرنیشنل ذیابیطس فیڈریشن (IDF) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 33 ملین افراد ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔ مزید 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی زیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1,100 سے زیادہ لوگ مر رہے ہیں۔ 2021 میں پاکستان میں ذیابیطس کے انتظام کی سالانہ لاگت 2,640 ملین ڈالر تھی جو آئی ایم ایف سے ملنے والی متوقع قسط سے دوگنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان مشروبات پر ٹیکس بڑھانا ان کی کھپت کو کم کرنے کے لیے پہلا اور سب سے موثر پالیسی اقدام ہے۔ دنیا کے 106 سے زائد ممالک اور ریاستوں نے ان مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر بیماریوں کا بوجھ کم کیا ہے۔ پاکستان کے بارے میں ورلڈ بینک کے ماڈلنگ اسٹڈی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میٹھے مشروبات پر 50فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگانے سے صحت پر ہونے والے اخراجات میں سالانہ 8.9ملین امریکی ڈالر ز کی بچت ہو گی اور اگلے 10 سالوں تک اوسطاٰ سالانہ 810ملین ڈالرز کا اضافی ریوینیو بھی ملے گا۔ حکومت اس آمدنی کو مکمل یا جزوی طور پر صحت عامہ کے پروگراموں کے لیے مختص کر سکتی ہے۔ثناء اللہ گھمن، جنرل سیکرٹری PANAH نے کہا کہ ”ایک ایسا ملک جہاں روزانہ 1100 سے زیادہ لوگ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے مرتے ہوں، روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہوں وہاں مشروبات کی صنعت پاکستانی وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی آر سے جوس پر ٹیکس کم کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔. انہوں نے مزید کہا کہ علاقائی اور عالمی سطح پر بہت سے ممالک کےمقابلے میں پاکستان میں مشروبات کی صنعت پر کم ٹیکس ہے۔ مثال کے طور پر سعودی عرب، قطر، عمان، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں نے سوڈاس پر 50 فیصد اور انرجی ڈرنکس پر 100 فیصد ایکسائز ڈیوٹی عائد کی ہے۔ ہندوستان میں میٹھے مشروبات پر 40 فیصد ٹیکس ہے۔ مالدیپ نے مشروبات کے ہر لیٹر پر 2.25 ڈالر لیوی عائد کی ہے۔ حکومت کو کارپوریٹ مفاد پر عوامی صحت کو ترجیح دینی چاہیے اور 2024-25 کے بجٹ میں میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھانا چاہیے۔ڈاکٹر عبد القیوم اعوان، سینئر ایگزیکٹو نائب صدر PANAH نے کہا کہ علمائے کرام کا معاشرے میں بڑا احترام ہے اور لوگ ان کی پیروی کرتے ہیں۔انہوں نے علمائے کرام پر زور دیا کہ وہ میٹھے مشروبات کے صحت کے نقصانات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور پالیسی سازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ ان کے استعمال کو کم کرنے کے لیے فوری طور پر پالیسی اقدامات کریں۔علمائے کرام نے اپنی تقریروں میں یقین دلایا کہ وہ میٹھے مشروبات کے صحت کے نقصانات کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کے لیے اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کریں گے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسٹیشنری اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی پر ٹیکس لگانے کے بجائے ان غیر صحت بخش مشروبات پر ٹیکس بڑھائے۔