اسلام آباد (بیورو رپورٹ)پناہ نے رفاہء انٹرنیشنل یونیورسٹی میں ”صحت مند غذا کے لیے عالمی ثبوت اور پالیسی کی تشکیل” کے موضوع پر دو روزہ سائنسی سمپوزیم کا اہتمام کیا۔ تقریب میں وائس چانسلر رفاء انٹرنیشنل یونیورسٹی ڈاکٹر انیس احمد نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی،کمانڈنٹ AFIC میجر جنرل نصیر احمد سمورر،پیٹرن پناہ میجر جنرل (ر)محمد اشرف خان، صدر پناہ میجر جنرل (ر) مسعود الرحمن کیانی، لیفیٹننٹ جنرل (ر) پروفیسر ڈاکٹر اظہر رشید، غیر ملکی ڈاکٹرز کے علاوہ،کراچی سے پروفیسر ڈاکٹر عبدلباسط، پروفیسر ڈاکٹر خاور کاظمی، پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال، ڈاکٹر شہزاد علی خان، پروفیسر ڈاکٹر واجد علی، پروفیسر کرنل (ر)شکیل احمد مرزا، منور حسین کنٹری ہیڈ(GHAI)،ڈاکٹر عمر ظفر جھگڑا، ڈاکٹر عبد القیوم اعوان، بریگیڈیئر(ر) عبدالحمید صدیقی، ڈاکٹرخواجہ مسعود احمدمنسٹری آف ہیلتھ، پاکستان سائنس فاؤنڈیشن سے ڈاکٹر ثاقب ناصر،لیفیٹننٹ جنرل (ر) مصطفی کمال اکبر،اسلام آباد فوڈ اتھارٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہرہ،ڈاکٹر شہزاد عالم WHO، PSQCA کے ڈائریکٹر، پاکستان ہارٹ فائل کی CEO اور جنرل سیکرٹری(پناہ) ثنا ء اللہ گھمن نے خطاب کیا۔
وائس چانسلر رفاہ یونیورسٹی ڈاکٹر انیس احمد نے مہمان خصوصی کے طور پر کہا کہ جسمانی ورزش کے ساتھ ساتھ صحت مند خوراک دماغ اور جسم کو صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور سول سوسائٹی کو غیر صحت بخش خوراک کے معمول کو تبدیل کرنے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔ انہوں نے پیشکش کی کہ رفاء یونیورسٹی، طلباء کے نصاب میں ایک مناسب صحت مند غذا کے منصوبے کو نافذ کرنے کے لیے پلیٹ فارم فراہم کرنے کے لیے تیار ہے اور دور دراز کے علاقوں میں بیداری پھیلانے کے لیے PANAH کی ہر ممکن مدد کرے گی۔
کمانڈنٹ اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر اے ایف آئی سی میجر جنرل نصیر احمد سمورنے کہا کہ پاکستانی قوم میں NCDs سے لڑنے اور ان پر قابو پانے کی مضبوط صلاحیت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کے لیے ہمارے اداروں کو مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ نہ صرف مریضوں کا علاج کیا جا سکے بلکہ صحت کے لیے مضبوط ڈھانچہ بھی تیار کیا جا سکے۔ اور لوگوں کو دل بیماریوں سے بچانے کے لیے PANAH اور AFIC، مل کر کام کر رہے ہیں اور کہ ہمیں اپنے کھانوں سے متعلق اسلامی تعلیمات کو اپنانا ہوگا۔
صدر پناہ میجر جنرل(ر) مسعودالرحمن کیانی نے کہا کہ میں تمام معزز مہمانوں بالخصوص کمانڈنٹ AFIC کا بہت مشکور ہوں کیونکہ پناہ AFIC کی چھتری کے نیچے قائم ہوئی اور پروان چڑھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ صحت مند زندگی گزارنے کے لیے قدرتی طرز زندگی اور جسمانی سرگرمیاں ہر فرد کے لیے لازمی ہیں۔ ہمیں اپنے کھانے اور کھانے کے طریقوں کے بارے میں محتاط رہنا چاہیے۔
پروفیسر کرنل (ر) شکیل مرزا نے کہا کہ پاکستان میں این سی ڈیز جیسی موزی بیماریوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں روزانہ 1200 سے زائد افراد ذیابیطس کی وجہ سے مرتے ہیں جبکہ پاکستان میں بالغ آبادی ہر چوتھا شخص ذیابیطس کی بیماری کا شکار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہماری کھانے کی عادت بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ ہم اپنی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی ڈائٹ پلان نہیں اپناتے۔
جناب منور حسین کنٹری ہیڈ(GHAI) نے کہا کہ NCDs کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس اور میٹھے مشروبات ہیں۔ انہوں نے مزیدکہا کہ پاکستان میں الٹرا پروسیسڈ پروڈکٹس انتہائی کم قیمت پر دستیاب ہیں اور ان مصنوعات کے پر ٹیکس کی شرح دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ NCDs کو کنٹرول کرنے کا بہترین طریقہ اس پر ٹیکس لگانا ہے جو کہ مختلف ممالک سے ثابت شدہ حکمت عملی ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط نے کہا کہ پاکستان ذیابیطس کی بیماری میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن گیا ہے جس کی وجہ سے معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک طرف تو روزانہ سیکڑوں انسان مر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی مینجمینٹ پر حکومت کے اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر خاور کاظمی نے کہا کہ دل کی بیماریاں دنیا سمیت پاکستان کا بھی بہت بڑا پرابلم بن چکی ہیں ان کی رو ک تھام کے لیے حکومت اور سول سوسائٹی کو مل کر سوچنا ہو گا اور صحت مندانہ طر ز زندگی اپنا کر ان بیماریوں پر کافی حد تک قابو پا یا جاسکتاہے۔
پروفیسر ڈاکٹر انجم جلال نے کہا کہ ہمیں آگاہی کے ساتھ ساتھ دل کی بیماریوں کو روکنے کے لیے پالیسیز کی بہت ضرورت ہے جس کے لیے دنیا کے مختلف ممالک میں اپنائی گئی پالیسوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی ڈاکٹروں نے NCD کی روک تھام کے لیے دنیا کی مثالیں دی کہ کس طرح باقی ممالک نے ان پر کنٹرول کیا۔
پروفیسر ڈاکٹر واجد علی نے کہا کہ ہمیں ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے، ان کے شروع ہونے سے پہلے کام کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمارے پاس حکمت عملی موجود ہے ان کو نافذکروانے کے لئے حکومت پاکستان کی مدد درکار ہے جبکہ پاکستان کی سول سوسائٹی کے ادارے اپنا بھر پور کردار ادا کر سکتے ہے۔
آخر میں جنرل سیکرٹری )پناہ(ثنا ء اللہ گھمن نے تمام معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پناہ 1984 سے عوام کی بہتری کے لیے کام کر رہی ہے اور مہلک بیماریوں پر قابو پانے کے لیے پالیسیاں بنانے کے لیے حکومت کو تکنیکی مدد فراہم کر رہی ہے۔ ہم NCD کی روک تھام کے لیے کافی پالیسیاں بنوا چکے ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ان پالیسوں پر عمل درآمد کرانے کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق اور پالیساں بھی بنائی جائیں۔اُنہوں نے مزید کہا کہ لوگوں کو مو زی بیماریوں سے بچانا ہم سب کی ذمہ داری ہے، ہم سب کو اس پر مل کر کام کرنا ہو گا۔