اسلام آباد(آئی ایم ایم)نائب امیرجماعتِ اسلامی پاکستان و صدر سیاسی کمیٹی لیاقت بلوچ نے چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ سے ملاقات کی اور آئینی، انتخابی، جمہوری اور بلدیاتی بااختیار اداروں کے لیے بنیادی مطالبات پر یادداشت پیش کی۔امیر جماعت اسلامی اسلام آباد نصراللہ رندھاوا بھی اس موقع پر موجود تھے۔چیف الیکشن کمشنر کو پیش کی گئی یاداشت اور میڈیا سے گفتگو میں لیاقت بلوچ نے واضح کیا ہے کہ 2013ء، 2018 ء کے عام انتخابات کے نتائج بھی متنازع رہے۔ اِسی طرح 2024ء کے عام انتخابات نے ملک کو سیاسی، اقتصادی، سماجی اور آئینی حقوق کے بحرانوں سے دوچار کردیا ہے۔ عوام نے جو فیصلہ دیا اُس کے برخلاف نتائج نے عوامی سطح پر خوفناک پولرائزیشن پیدا کردی ہے۔ اِسی وجہ سے حکومتیں بے بنیاد ہیں اور آئینی ادارے فوج، عدلیہ اور الیکشن کیشن آف پاکستان بھی عوام کی نظروں میں انتہائی متنازع بن گئے ہیں۔ ملک کو سیاسی انتخابی بحرانوں سے نکالنے کے لیے ناگزیر ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان 2024ء انتخابات کے عوامی مینڈیٹ کے حقیقی تلاشکے لیے فارم 45 کو بنیاد بنانے کا فیصلہ کرے اور عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کرکے ملک پر مسلط بحران ختم کیا جائے۔ ممکن ہے کہ کئی قوانین رُکاوٹ ہوں لیکن انتخابات کے انعقاد اور انتخابی نتائج مرتب کرنے کے لیے تو الیکشن کمیشن مکمل بااختیار ہے۔
چیف الیکشن کمشنرسکندر سلطان راجہ کو دی جانے والی یاداشت میں کہا گیا ہے کہ جماعتِ اسلامی پاکستان کا وفد اسلام آباد اور پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کے منعقد نہ ہونے سے عام شہریوں کو مسلسل درپیش مسائل پر ملاقات کے لیے آیا ہے تاکہ بلدیاتی انتخابات کے حوالہ سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اہم قومی ذمہ داری پر اپنا مؤقف پیش کرے۔لوکل گورنمنٹ کو عصرِ حاضر میں جمہوریت کا اہم عنصر قرار دیا گیا ہے کیونکہ مقامی سطح پر ہی لوکل گورنمنٹ کو خود اختیاری کی بہترین شکل جانا چاتا ہے، جس سے عوام براہِ راست حکمرانی میں بآسانی شریک ہوجاتے ہیں۔ دُنیا بھر میں جمہوری معاشروں میں لوکل گورنمنٹ کے توسط سے فراہم کردہ خدمات اور سہولیات، انتظامی بندوبست دیکھ کر ہی وہاں جمہوری حکمرانی کے ٹھوس ثمرات کا اندازہ لگ جاتا ہے۔ لوکل گورنمنٹ انتخابات ہی ووٹرز کے مضبوط جمہوری رجحان تشکیل دینے میں جوہری کردار ادا کرتے ہیں۔
مقامی حکومتیں کسی بھی ملک کے انتظامی ڈھانچہ کا اہم حصہ ہوتی ہیں، جو عوامی خدمات کی فراہمی اور نچلی سطح پر انتظامی اُمور کی انجام دہی کے لیے مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہیں۔آئینِ پاکستان 1973ء میں 2010ء کی اٹھارویں آئینی ترمیم نے لوکل گورنمنٹ کا مسئلہ واضح طور پر حل کردیا، اِس طرح یہ متعین ہوگیا کہ آئین کے مطابق لوکل گورنمنٹ کی نوعیت کیا ہے۔ نمائندگی کا فریم ورک اور بنیادی خد و خال بھی بیان کرتا ہے کہ کیسے اور کون آئین کی ذمہ داری ادا کرے گا، یہ گائیڈ لائن دے دی گئی ہے۔ لیکن پاکستان میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا عوام کے بنیادی جمہوری اور شہری حقوق کے حوالے سے رویہ بڑا ہی تکلیف دہ ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عام انتخابات اور لوکل گورنمنٹ انتخابات کے لیے اہم کردار ہے۔ آئین کے درجِ ذیل آرٹیکلزاس حوالہ سے حکومت اور آئینی اداروں کو پابند کرتے ہیں:
۔ آئین کے آرٹیکل 7 (مملکت کی تعریف) میں مقامی حکومتوں کی حیثیت اور اختیار کی مکمل وضاحت کی گئی ہے۔
۔ آئین کا آرٹیکل 32 کہتا ہے کہ بلدیاتی اداروں کو فروغ دیا جائے گا۔
۔ آئین کا آرٹیکل 140?اے، جوکہ مقامی حکومتوں کے قیام سے متعلق ہے، کہتا ہے کہ ہر صوبہ
مقامی حکومتوں کا نظام قائم کرے گا اور سیاسی، انتظامی اور مالیاتی ذمہ داریاں اور اختیار مقامی حکومتوں کے نمائندوں کو منتقل کردے گا۔
چیف الیکشن کمشنر کو یاد دلایا گیا ہے کہ لوکل گورنمنٹ کے لیے انتخابی حلقہ بندیاں عدالتِ عظمیٰ کی ہدایات پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اسلام آباد اور صوبوں میں قانون سازی کرنی ہے، اُس کے مطابق لوکل گورنمنٹ انتخابات کے لیے انتخابی حلقہ بندیاں کرنا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے۔صورتِ حال یہ ہے کہ
(i) سندھ، بلوچستان، خیبرپختونخوا میں عدالت اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے دباؤ پر انتخابات تو ہوگئے لیکن صوبائی حکومتیں مقامی حکومت کے اداروں کو نہ چلنے دے رہی ہیں اور نہ ہی اختیارات اور فنڈز دینے کی اپنی آئینی ذمہ داری پوری کررہی ہیں۔ اِس لیے عملاً انتخابی عمل کے بعد ادارے عوام کو خدمات، حقوق کی ادائیگی کہ ذمہ داری پوری نہیں کرپا رہے۔ تینوں صوبوں میں منتخب بلدیاتی نمائندے سراپا احتجاج ہیں۔
(ii) کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے انتخابات میں بار بار التواء، حلقہ بندیوں، من پسند انتخابی نتائج کے حصول کے لیے صوبہ سندھ حکومت نے ہر حربہ استعمال کیا۔ کئی یوسیز کی انتخابی پٹیشنز کے ہنوز فیصلے نہیں ہونے دیے جارہے۔ اِسی طرح میئرشپ انتخابات میں تو حکومتی مداخلت کی انتہاء ہوگئی، واضح غالب اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کردیا گیا۔ کراچی جیسے میگا سٹی کے عوام کے ساتھ سنگین مذاق کیا گیا لیکن ملک کا انتظامی ڈھانچہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان مفلوج اور بے بسی کی تصویر بنارہا۔ اِس حادثہ نے پورے جمہوری نظام کو داغ دار بنادیا، جو تمام آئینی اور بااختیار اداروں کے لیے سوالیہ نشان ہے۔
یاداشت میں جماعتِ اسلامی کے وفد نے مطالبہ کیا ہے کہ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔ 2015ء کے انتخابات کے بعد بلدیاتی انتخابات کا چار مرتبہ التواء ہوچکا اور التواء کے لیے ہر مرتبہ بدنیتی پر مبنی قانون سازی کا سہارا لیا گیا جس سے اسلام آباد کے عوام کے بنیادی شہری حقوق کے حصول کا حق معزول ہے۔ ایوانِ صدر، ایوانِ وزیراعظم، پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور الیکشن کیشن آف پاکستان جیسے سوِل سروس کے اعلیٰ ترین سیکرٹریٹ کے مؤقر اداروں کی موجودگی کے باوجود اسلام آباد میں بلدیاتی جمہوری نظام بے بسی کی تصویر بنا ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن
آف پاکستان بدنیتی پر مبنی قانون سازی کے حربوں سے اسلام آباد کے ووٹرز کو محفوظ رکھے اور بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں، جو بھی اِس کے لیے رُکاوٹ پیدا کررہا ہے اُن کے خلاف خود تادیبی کارروائی کرے یا سپریم کورٹ آف پاکستان کو ریفرنس بھیجا جائے۔