اسلام آباد ( آئی ایم ایم) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے جمعہ کے روز پارلیمنٹ ہاﺅس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے پاکستانی سیاست، معیشت اور عدلیہ کے ایشوز پر تفصیلی گفتگو کی۔ صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ کسی بھی پارلیمنٹ کے لئے سب سے بڑا کام قانون سازی اور آئین میں تبدیلی ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مظاہرہ سب سے پہلے اور سب سے بڑی کامیابی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے حاصل کی تھی جب انہوں نے اتفاق رائے کرکے ملک کو ایک متفقہ آئین دیا تھا۔ اس کے بعد ہم نے اٹھارہویں ترمیم کرکے اسی آئین کو بحال کیا تھا۔ اس وقت ہر ادارہ کسی نہ کسی چیلنج کا مقابلہ کر رہا ہے اور سب کو نظر آرہا ہے کہ یہ نظام نہیں چل رہا۔ یہ بات بھی سب کو پتہ ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف کے لئے اس کی تیسری نسل کو انتظار کرنا پڑا۔ اب جب یہ صورتحال ہے تو ایک پاکستانی کو انصاف کے حصول کے لئے کتنی دشواریوں کا سامان کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے تمام ادارے مشکلات کا شکار ہیں جن میں پارلیمان بھی ہے۔ صحافت بھی اس وقت مشکلات کا شکار ہے۔ صحافت ایک اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمیں آزاد صحافت کے ساتھ ساتھ ذمہ دار صحافت کی بھی ضرورت ہے۔ حال ہی میں ایک جلسے میں صحافیوں کو گالیاں دی گئیں۔ میڈیا کا بھی ایک معیار ہونا چاہیے تاکہ اگرکوئی غلط خبرنشر ہوتی ہے تو اس کی وضاحت بھی اسی طرح سے نشر کی جانی چاہیے۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔
حال ہی میں بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات ہوئے اور کے پی کے حالات تو اس سے بھی زیادہ برے ہیں۔ کے پی کا وزیراعلیٰ اپنے گاﺅں میں ہی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ دہشتگردی کا مقابلہ صوبائی اور وفاقی حکومت نے مل کر کرنا ہے۔ اس وقت پہلی مرتبہ یہ نظر آرہا ہے کہ پاکستان کے عوام کو امن دینے میں مشکلات پیش آرہی ہیںا ور یہ پہلی دفعہ ہے کہ اس ایشو پر بھی سیاست کی جا رہی ہے۔ پرسوں سے ایک امید نظر آرہی ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں تمام پارٹیوں پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو انہی مسائل پر غوروخوص کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ کمیٹی برضا و رغبت قائم کی ہے۔ پارلیمان میں ایک ورکنگ ریلیشن شپ ہونا چاہیے تاکہ عوام کے مسائل حل کئے جا سکیں۔ اگر ہم ایسا کر لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہوگی۔ میثاق جمہوریت کا نظریہ یہ تھا کہ ہم نے پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوں اور سارے ادارے کام کرنے لگیں۔ ہم نے میثاق جمہوریت پر 90فیصد عمل کر لیا ہے صرف چند نکات رہ گئے ہیں جن میں سے ایک سچائی اور مفاہمت کا کمیشن ہے جو ہر قومی مسئلے پر کام کر سکتا ہے اور بہت ضروری ہے۔ میثاق جمہوریت میں جو نیب اصلاحات تھیں ان پر بھی عمل کرنا ہوگا۔ نیب کو صرف سیاسی انتقام کا ادارہ نہیں بننا چاہیے۔ میثاق جمہوریت میں عدلیہ کے متعلق بھی نکات تھے جو شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے پیش کیے تھے تاکہ عدالت کو طاقتور بنا دیں اور عدالت کام کرنا شروع کر دے اور عام آدمی کو فوری اور سستا انصاف مل سکے۔
اس وقت مہنگائی بہت بڑا مسئلہ ہے اور ہم سب چاہتے ہیں کہ مہنگائی کم کرنے کے لئے یہ تجاویز دی جائیں کہ مہنگائی کیسے کم کی جاسکتی ہے اور یہ کام باہمی مشاورت اور بات چیت سے ہی ہو سکتا ہے۔ اس وقت نفرت کی سیاست کی وجہ سے پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت میں توسیع کے سوال پر انہوںنے کہا کہ یہ کسی ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہو سکتا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کا موقف میثاق جمہوریت پر مبنی ہے۔ عدلیہ میں فی الوقت جس طرح سے تقرریاں کی جا رہی ہیں اس پار پیپلزپارٹی تنقید کرتی رہی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اس میں زبردستی تبدیلی کرکے انیسویں ترمیم پاس کروائی گئی۔ عدلیہ میں تقرری کا عمل ایسا ہے کہ Of the Judiciary, for the Judiciary, by the Judiciary ہے۔ اس طریقہ کار میں بہتری لانا ضروری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ہر فیصلے زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے سے کریں تو بہتر ہوگا۔
ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس وقت تو آئینی ترمیم پر صرف باتیں ہو رہی ہیں لیکن اس وقت مولانا فضل الرحمن اسپیکر کی بنائی ہوئے کمیٹی میں خود شامل ہیں۔ کمیٹی اگر آئین قانون میں ترمیم کرنا چاہتی ہے تو ہم وہ کریں گے اور اگر نہیں چاہتی تو ہم نہیں کر سکتے۔ اس کمیٹی سے کم از کم یہ توقع ہے کہ پارلیمنٹ کاایک ضابطہ اخلاق بن جائے۔ گورنر راج کے سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلزپارٹی گورنر راج کے تو خلاف ہے لیکن کچھ مخصوص حالات میں اگر گورنر راج لگایا جائے تو اٹھارہویں ترمیم کی موجودگی میں زیادہ وقت کے لئے گورنر راج نہیں لگایا جا سکتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ میثاق جمہوریت کے جذبے کو پھر سے قائم کریں۔ ہم آپس کی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ اگر میثاق جمہوریت کے باقی نکات پر عمل ہو جائے تو یہ خوش آئند ہوگا۔ ہم ہمیشہ جمہوری ، آئینی اور مثبت طریقے سے اس کمیٹی میں حصہ لینا چاہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں ان کا مقصد حکومت میں شامل ہونا نہیں ۔ ہمارا مقصد عوام کے مسائل جیسا کہ مہنگائی اورغربت کا خاتمہ ہے اور معیشت میں بہتری ہے۔ اسی طرح ہم ہر ادارے میں بہتری چاہتے ہیں۔