اسلام آباد(آئی ایم ایم)چیئرمین سینٹ سید یوسف رضا گیلانی کا اسلام اباد میں منعقدہ سیرت النبی کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب.میں اس سیرت نبی کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور چوہدری سالک حسین اور ان کی وزارت کو مبارکباد پیش کرتا ہوں.ملک کے مختلف حصوں سے ائے علمائے کرام اور معزز مہمانوں نے اس کانفرنس میں شرکت کر کے سیرت النبی کی اہمیت کو اجاگر کیا.اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے،اسلام ہمیں زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں رہنما اصول فراہم کرتا ہے.ان رہنما اصولوں کی مدد سے ہم مختلف شعبوں میں درپیش مسائل پر کامیابی سے قابو پا سکتے ہیں.
حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے.اسلام کی دعوت کا بنیادی مقصد انسان کی اخلاقی تربیت تزکیہ نفس اور دنیا اور اخرت میں کامیابی کے لیے ایک مکمل اور بہترین انسان کی تیاری ہے.ان مقاصد کا حصول علم کے بغیر ممکن نہیں اللہ تعالی نے حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نہ صرف امت کے لیے ایک معلم بنا کر بھیجا بلکہ اپ نے اپنی حیات طیبہ کے ذریعے دین کی تعلیمات کا عملی نمونہ بھی دکھایا .آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک مثالی اسلامی معاشرہ کی بنیاد رکھی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کی بدولت ہی ممکن ہوا کہ قرون اولی کے مسلمانوں نے دنیا میں ایک ممتاز مقام حاصل کیا.مسلمانوں نے یہ کامیابی اپنی علمی اور اخلاقی برتری کے بل بوتے پر حاصل کی.اللہ تعالی نے قران مجید کے نزول کا آغاز ہی اقرا اور قلم کے ذریعے سے علم سکھانے سے کیا.حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زندگی میں امت اور اپنے اصحاب کی تعلیم و تربیت کا خصوصی انتظام کیا .
آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ایک طرف مسجد نبوی میں اہل صفہ کی تعلیم کا بندوبست کیا تو دوسری طرف جنگی قیدیوں کے لیے ازادی کے بدلے ناخواندہ صحابہ کو تعلیم دینے کی شرط رکھی.تعلیم انسانی معاشرے کا بنیادی جزو ہے.علم کے بغیر ایک مثالی اسلامی معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ،شہریوں کی تعلیم کا بندوبست کرنا اسلامی ریاست کے فرائض میں شامل ہے.کسی بھی تعلیمی نظام کا بنیادی مقصد ایک مکمل انسان کی تشکیل ہونا چاہیے .یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تعلیمی نظام میں اس بات پر توجہ دیں کہ طلباء کو اخلاقی اعتبار سے بہترین انسان بنائیں
ہمارا تعلیمی نظام ایسے افراد پیدا کرے جو حقوق اللہ حقوق العباد اور اپنی دینی اخلاقی سماجی اور انسانی ذمہ داریوں سے مکمل واقفیت رکھتے ہوںہمارا نظام ہمارے بچوں کو عبادات اور اداب معاشرت کے بارے میں تعلیم دے حصول علم ہر مسلمان پر فرض کیا گیا ہے.حصول تعلیم کو اسان بنانے اور علم تک رسائی کو بڑھانے کے لیے اقدامات کرنا ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے.میری وزارت عظمی کے دور میں آئین پاکستان میں ایک ترمیم کے تحت حصول تعلیم کو ایک بنیادی اور آئینی حق قرار دیا گیا اور اس کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا.ائین پاکستان کی شق 25 اے کے مطابق ریاست پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کے لیے مذکورہ طریقہ کار پر جیسا کہ قانون کے ذریعے مقرر کیا جائے مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرے گی.یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں تقریبا دو کروڑ 60 لاکھ بچے سکول نہیں جا پاتے.ہمیں اپنے ملک میں ایک ایسا جامع تعلیمی نظام رائج کرنا ہوگا جہاں لوگوں کی سماجی حیثیت زبان صوبے اور ذات کی تفریق سے بالاتر ہو کر انہیں تعلیم تک یکساں رسائی دی جا سکے .ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو افراد کی انفرادی ضروریات کو مدنظر رکھے .
ہر بچے کی انفرادی صلاحیتوں اور خصوصیات کو مزید نکھارے .کوئی بچہ مالی مشکلات یا جسمانی معذوری کی وجہ سے تعلیم کی دولت سے محروم نہ رہے .سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی روشنی میں ہمیں اج ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو ہماری ائندہ نسلوں کو عملی زندگی کے لیے تیار کرے.تعلیمی نظام کو ایک جامع تعلیمی نظام بنانے کی اشد ضرورت ہے.ایک ایسا نظام جو تمام شعبہ ہے زندگی میں ہماری قومی و معاشرتی ضروریات کو پورا کر سکے ہمیں اپنے اداروں کے موثر انتظام سماجی خدمات کی فراہمی صنعتی وزری شعبے کی ترقی اور دیگر شعبوں میں تربیت یافتہ افراد کی اشد ضرورت ہے.نوجوانوں کو مارکیٹ کی ضروریات اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم اور ہنر فراہم کرنا ہوں گے.ایک ایسے تعلیمی نظام کی ضرورت ہے جو لوگوں کو عملی دنیا کے لیے تیار کرے.تعلیمی نظام کی صرف درس و تدریس ہی نہیں بلکہ طلباء کی ذہنی و جسمانی تندرستی اور صحت پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے.