لاہور(آئی ایم ایم)آئینی فیصلوں کی وجہ سے پاکستان کی اعلی عدالتیں کٹہرے میں کھڑی ہیں،جب فیصلے نظریہ ضرورت کے تحت ہونگے تو وہ تاریخ پر کالا دھبہ ثابت ہونگے۔عدالتوں نے پارلیمانی نظام اور جمہوریت کو سبو تاژ کیا،پیپلز پارٹی کو پنجاب کی سیاست میں مفاہمت سے نقصان ہوا۔ہمارے ن لیگ کیساتھ معاہدے میں ایک کامے (٫)کی بھی پیشرفت نہیں ہوئی۔جہاں پیپلز پارٹی کے پاس اختیار ہے وہاں عوامی بھلائی کی کام کر رھی ہے۔پیپلز پارٹی ائین،جمہورہت،پارلیمنٹ اور عوام کیساتھ کھڑی ہے اورریاست کو مضبوط کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی رہیگی۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے سیکرٹری اطلاعات شہزاد سعید چیمہ نے پیپلز سیکرٹیریٹ میں ثمینہ خالد گھرکی، رانا جواد،میاں ایوب اور حاجی عزیز الرحمن چن کیساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر علامہ یوسف اعوان،ڈاکٹر خیام حفیظ، چودھری سجاد نذیر،نرگس خان،بشری مانیکا بھی موجود تھے۔
شہزاد سعید چیمہ کا کہنا تھا کہ مسئلہ عدالتوں کا نہیں بلکہ انکے سربراہان کے ذاتی پسند نا پسند پر مبنی فیصلے ہیں۔انہوں نے واضح کیا کہ آئینی عدالت کا مقصد کسی عدالت کے اختیارات یا حدود کو چھیڑنا نہیں۔آئینی عدالت میں پورے پاکستان کی نمائندگی ہو گی تاہم آئینی عدالت بننے پر سپریم کورٹ لائم لائٹ سے نکل جائیگی۔انہوں نے سوال کیا کہ جب سول کورٹ،فیملی کورٹ اور دیگر اپنے معاملات دیکھ سکتی ہیں تو آئینی عدالت کیوں کام نہیں کر سکتی،آئینی ترامیم سے انصاف پر مبنی فیصلے ہونے شروع ہو جائیں تو کیا مضائقہ ہے۔شہزاد سعید چیمہ کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلز پارٹی ناموں اور افراد کے نام پر ترمیم نہیں چاہتی ہم عدالتی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔پیپلز پارٹی نے ماضی میں بھی اصلاحات کیں تو تنقید کی گئی۔2006 کا غیر مکمل ایجنڈا ہم آئینی عدالت بنا کر مکمل کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صدر زرداری 12برس مسلسل جیل میں رھے،بے نظیر بھٹو قتل کیس کی گواہیاں ابھی تک۔مکمل نہیں ہو سکیں۔ہمیں کسی جماعت کیساتھ مشاورت پر کوئی اعتراض نہیں۔ہمارا مسئلہ عمر کی حد گھٹانے بڑھانے میں نہیں۔ہر جماعت سے رابطہ کر رھے ہیں۔
انہوں نے مذید کہا کہ سپریم کورٹ میں عوامی مفاد کے 80فیصد مقدمات تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔قومی ایشوز پر ساری جماعتیں بیٹھ کر اتفاق رائے پیدا کریں،کے پی میں رات 8بجے کے بعد قانون نظر نہیں اتا۔پیپلز پارٹی وسطی پنجاب کے فنانس سیکرٹری رانا جواد نے کہا کہ کسی جج کے چیف جسٹس بنانے پر اعتراض نہیں،انہی عدالتوں سے ہمارے کارکنوں اور رہنماؤں کے قتل اور عمر قید کی سزائیں ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت اس وقت دنیا کے ,85ممالک میں کام کر رھی ہیں۔ سپریم کورٹ میں 60ہزار سے زائد کیس زیر التواء ہیں۔ججز کی عمر پوری دنیا میں 60سے 72 سال ہے۔ہمارا موقف ہے ہم ججز کو تعینات کرنے کی عمر پربات کرنا چاہتے ہیں۔