اسلام آباد (آئی ایم ایم) چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے جمعہ کے روز اپنے چیمبر پارلیمنٹ ہاﺅس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے مجھے یہ اسپیس ایک مہینے سے دے رکھی ہے کہ عدالتی اصلاحات کے متعلق آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پیپلزپارٹی کا حتمی ڈاکومنٹ سامنے آیاہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اب تک باقاعدہ طور پر ڈرافٹ نہیں ملا ہے۔ پیپلزپارٹی کا ڈرافٹ کامران مرتضی کے پاس ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے اور پھر بھی اتفاق رائے چاہ رہی تویہ خوش آئندہے۔ حکومت کب تک اپنا ٹائم فریم چھوڑ کر ہمیں سپیس دے گی اس لئیے میری پوری کوشش ہے کہ مسلسل انگیج کرکے حکومت کے سامنے سیاسی مشاورت سے متفقہ مسودہ رکھ سکوں ۔ حکومت آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئینی ترامیم اتفاق رائے سے کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے دئیے گئے مسودے میں آرٹیکل 175-A میں آئینی عدالت کا قیام شامل ہے اور آرٹیکل 175 اے، بی ، ڈی، ای ، ایف میں ترامیم کی تجویز بھی شامل ہے۔ حکومت کے مسودہ میں واضح نکات سامنے آئے ہیں۔ عدالتی اصلاحات کے علاوہ جو نکات ہیں وہ حکومت سے کہا ہے کہ جلد شیئر کرے۔ یقینا حکومت کے اپنے کچھ منشور کے مطابق نکات بھی ہوں گے۔
مسلم لیگ نواز کا حق ہے کہ چارٹر آف ڈیموکریسی کے مطابق آئینی ترمیم لاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی خواہشات کو آئینی ترمیم کے ساتھ نہیں جوڑا اور ہم نے آئینی عدالت اور جیوڈیشل ریفارمز کو سامنے رکھا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا شکر گزار ہوں کہ ہمارے اصرار پراتفاق کیا کہ سب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہئے ۔ ہمیں حکومت نے مکمل وقت دیا اور ستمبر سے ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر مکمل اتفاق رائے نہ ہوا تو حکومت کب تک انتظار کرے گی؟ ابھی تک صرف پیپلز پارٹی کا مکمل مسودہ سامنے آیا ہے اور جے یو آئی کا مسودہ ابھی تک ہمیں نہیں ملا۔ پارلیمانی کمیٹی کی تفصیلی میٹنگ چلی، جس میں تمام جماعتوں نے رائے دی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے اوریجنل ڈرافٹ کی تجاویز جس میں آئینی عدالت سے متعلق امور ہیں وہ کمیٹی میں پیش کیا ۔ ہم نے یہ ڈرافٹ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا ۔ اس کے علاوہ حکومت نے جو وکلاءسے مشاورت کی اسکے نکات بھی اس کمیٹی میں پیش ہوئے ۔ وزیر قانون نے وکلا کیساتھ ایک تفصیلی مشاورت کی اورجو وکلا کی تجاویز سامنے آئیں وہ بھی پیش کی گئیں ۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنا تبصرہ پیش کیا ۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنا موقف دہرایا کہ پیپلز پارٹی کیساتھ اتفاق رائے سے مسودہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ہم نے بھی اس بات کو دہرایا کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے کرکے آئینی ترمیم ہو ۔ کوشش بھی یہی تھی آج بھی یہی بات کہتے ہیںاور کل بھی یہی کوشش ہوگی کہ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ ہم صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنا چاہتے ۔
چیئرمین بلاول نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بہت پر اعتماد ہے کہ ان کے پاس نمبر موجود ہیں ۔ وزیر قانون نے بتایا ان کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے مگر ہم تمام سیاسی جماعتوں کو اس معاملے اتفاق رائے کیلئے یہاں بیٹھے ہیں ۔ میں ان کی بات کو سراہتا ہوں مگر گزشتہ ماہ سے اب تک اتفاق رائے کیلئے ہی کوشش ہورہی ہے ۔ مگر کب تک حکومت ہمیں اتفاق رائے کیلئے سپیس دے گی اورکتنا ٹائم دے گی ۔ ایسی صورت میں جب ایس سی او ہورہا ہے، اس صورت میں، میں بھرپور کوشش کررہا ہوں کہ اتفاق رائے قائم ہو ۔ اگر اتفاق رائے میں ٹائم لگتا ہے تو شاید حکومت اپنے اس آئینی قانونی حق کو استعمال کرے اور اسے موو کرے ۔ مگر ہماری پوری کوشش ہے اور ہم نے ہمیشہ یہی موقف رکھا کہ ایک مکمل اتفاق رائے قائم ہو ۔