اسلام آباد(آئی ایم ایم)پاکستان میں غیر متعدی بیماریاں خطرناک حد تک بڑھ رہی ہیں۔ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیوں کی وجہ سے روزانہ 1100 لوگ مرتے ہیں، روزانہ 300 سے زائد اعضاء نکالے جاتے ہیں۔ پاکستان میں 33 ملین ذیابیطس کے مریضوں کے ساتھ ذیابیطس کے ساتھ زندگی گزارنے والوں میں تیسرے نمبر پر ہے، اس کے علاوہ 10 ملین لوگ ابتدائی درجے کی ذیابیطس میں مبتلاء ہیں۔ فوری پالیسی ایکشن کے بغیر 2045 تک ذیابیطس میں مبتلا افراد کی تعداد 62 ملین تک بڑھ جائے گی۔ ان خدشات کا اظہار اقراء یونیورسٹی اسلام آباد میں منعقدہ یوتھ سینسائزیشن سیشن میں کیا گیا۔ اُس سیشن کا مقصد نوجوانوں کو غیر صحت بخش خوراک کی روک تھام کی مہم میں شامل کرناہے۔
جنرل سیکرٹری پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن (PANAH) جناب ثناء اللہ گھمن نے کہا کہ پاکستان میں غیر متعدی بیماریاں وبائی شکل اختیار کر رہی ہیں اور اگر ان بیماریوں کے ممکنہ خطرے کے عوامل کو کنٹرول کر لیا جائے تو ان بیماریوں میں نمایاں کمی واقع ہو گی۔ غیر صحت بخش خوراک جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز اور میٹھے مشروبات ان بیماریوں کی بڑی وجوہات میں سے ہیں جن میں چینی، سوڈیم اور ٹرانس فیٹس کی بہت زیادہ مقدار ہے۔ حکومت ان غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرے۔
جناب ثناء نے ان سیشنز کے انعقاد کے مقصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ نوجوان کسی بھی ملک کی اہم قوت ہوتے ہیں جو معاشرے اور پالیسی سازی میں بھی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ پناہ پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کے طلباء پر مشتمل ایک نوجوان فورس تیار کر رہا ہے اور اس کا بنیادی مقصد بہترین طرز عمل کی مختلف تجاویز تیار کرنا ہے جس کو ملک میں غیر متعدی بیماریاں کو کنٹرول کرنے کے لیے لاگو کیا جا سکتا ہے۔ PANAH طلباء کو ڈیٹا اور وسائل فراہم کر کے نوجوانوں کے ان لیڈ پروجیکٹ کی قیادت کرے گی۔