اسلام آباد(نیوز ڈیسک)22 صفحات پر مشتمل فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تحریر کیا،عدالت نے کہا قانون سازی کرنا پارلیمان کا اختیار ہے، اداروں کے درمیان باہمی احترام کے آئینی تقاضے ہیں، باہمی احترام کا تقاضا ہے کہ سپریم کورٹ پارلیمان کے رائے کو اپنی رائے سے تبدیل نہ کرے،آئین سپریم کورٹ کو لامحدود اختیارات نہیں دیتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آئین اور عدلیہ کی آزادی کے منافی نہیں،پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے شفافیت اور انصاف تک رسائی میں مدد ملے گی.
عدالت نے تحریری فیصلے میں کہا چیف جسٹس اور دو سینئر ججز پر مشتمل کمیٹی سے عدلیہ زیادہ بااختیار ہوگی، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں اپیل کا حق دیا گیا،فیصلے کی خلاف اپیل کا حق دنیا بھر کے قوانین کیساتھ شرعی تقاضا بھی ہے،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون بننے سے پہلے ہی عدالت نے حکم امتناع جاری کر دیا، قانون کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس میں کچھ غیر آئینی نہیں ہے،اس قانون کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ پہلی سماعت پر ہو جانا چاہیے تھا، آئین چیف جسٹس پاکستان کو یکطرفہ مقدمات کے فیصلے کرنے کا اختیار نہیں دیتا،چیف جسٹس پاکستان کی اپنی دانش آئین کا متبادل نہیں ہو سکتی۔
عدالت نے کہا چیف جسٹس کا ماسٹر آف روسٹرز ہونا آئین میں کہیں نہیں لکھا،جمہوریت کی بنیاد پر قائم آئین میں ماسٹر کا لفظ تضحیک آمیز ہے، ماسٹر کا لفظ غلامی کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جو آئین اور شرعی اصولوں کیخلاف ہے، شرعی اصول بھی ایک سے زائد افراد کے درمیان ہونے والے معاملے میں مشاورت لازمی قرار دیتے ہیں،اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنا دراصل دوسروں کو اہمیت نہ دینے کے مترادف ہے،عدلیہ کی ساکھ متاثر ہونے سے ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔
مزید پڑھیں: بلاول بھٹو زرداری نوجوانوں کے بہترین مستقبل کی ضمانت ہیں، ہمایوں خان