ایرانی صدر ابراہیم رئیسی ان دنوں پاکستان کے تین روزہ دورے پر پاکستان پہنچے ہیں، جو کراچی لاہور سمیت دارالحکومت کا دورہ کریں گے۔
ایرانی صدر الیکشن کے بعد پہلے غیر ملکی اعلیٰ مہمان ہیں، جو پاکستان کا دورہ کر رہے ہیں۔
تاہم ایرانی صدر سے متعلق چند دلچسپ معلومات آپ کو بتائیں گے۔
ایران کے شہر مشہد میں پیدا ہونے والے ابراہیم رئیسی کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے، ایرانی صدر کے والد سید حاجی بھی معروف مذہبی رہنما رہ چکے ہیں۔
2 بیٹیوں کے والد ابراہیم رئیسی شاہد موتاہاری یونی ورسٹی سے قانون میں پی ایچ ڈی حاصل کی ہے، ابراہیم رئیسی 5 سال کے تھے جب ان کے والد اس دنیا سے چل بسے تھے۔
دوسری جانب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سیاہ رنگ کا گاؤن پہنے دکھائی دیتے ہیں، غیر ملکی میڈیا کی جانب سے کہنا تھا کہ گاؤن کی وجہ یہ ہے کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ان کا تعلق حضرت محمد ﷺ کی آل اولاد سے ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ ابراہیم رئییسی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی حسینی خامنائی کے کافی قریبی سمجھے جاتے ہیں، ایران کے پہلے صدر منتخب ہوئے ہیں جو کہ امریکی پابندیوں کے دوران ہوئے ہیں۔
بات کی جائے تجربے کی تو ایرانی صدر 1980 میں حمدان شہر اور کاراج شہر کے پراسیکیوٹر رہ چکے ہیں جبکہ 1985 سے 1988 تک ڈپٹی پراسیکیوتر تہران بھی رہ چکے ہیں۔
جبکہ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق ایرانی صدر اس ’4 رکنی ڈیتھ پینل‘ کا حصہ رہ چکے ہیں جسے نے مبینہ طور پر 5 ہزار سیاسی قیدیوں کو سزائیں دیں، تاہم آج تک ایرانی صدر نے اس پر تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ایرانی صدر یہاں بھی رکے نہیں بلکہ 1989 سے 1994 تک تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کے طور پر سامنے آئے، جبکہ 1994 سے 2004 تک انسداد کرپشن اور مس کنڈکٹ کے ادارے کے سربراہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا چکے ہیں۔ جبکہ 2006 میں ابراہیم رئسی اس کمیٹی کا حصہ رہ چکے ہیں جو کہ سپریم لیڈر کو چنتی ہے۔
تہران کے پراسیکیوٹر جنرل کے بعد ابراہیم رئیسی ایران کے پراسیکیوٹر جنرل منتخب ہوئے، جبکہ 2017 میں ایرانی انتخابات میں حسن روحانی کے مدمقابل کھڑے ہوئے تھے تاہم محض 38 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ حسن روحانی نے 57 فیصد ووٹ لیے۔
2019 میں سپریم لیڈر نے ابراہیم رئیسی کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز کیا، جبکہ 2021 میں بھاری اکثریت کے ساتھ ابراہیم رئیسی ایران کے صدر منتخب ہوئے۔
امریکہ سے متعلق ایرانی صدر کا بیانیہ دنیا بھر میں توجہ حاصل کر چکا ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر دونوں ممالک کے درمیان 2015 نیوکلئیر ڈیل پر رضامندی ہو بھی جائے تو بھی وہ امریکی صدر سے بات کرنا پسند نہیں کریں گے۔