مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور مشرقی یورپ کے لیے ورلڈ فوڈ پروگرام کی علاقائی ڈائریکٹر کورین فلیشر نے بتایا ہے کہ عالمی ادارہ مختلف بحرانوں کے باعث کمیونٹیز کے لیے امداد کم کرنے پر مجبور ہے۔
عرب نیوز کو دبئی میں انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا ’یہ حالات عالمی وبا کورونا کے اثرات اور یوکرین کی جنگ کے باعث اشیائے خورونوش کی قیمتوں پر پڑنے والے اثرات کی وجہ سے ہیں۔
دنیا میں اشیائے خورونوش کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور محدود عطیات کی وجہ سے بجٹ میں کمی آئی ہے تاہم انسانی امداد فراہم کرنے والی تنظیمیں دنیا کے متعدد بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
فلیشر نے کہا کہ دنیا میں بھوک بڑھ رہی ہے اور حکومتیں اب اپنی معیشتوں اور ضروریات کو دیکھ رہی ہیں اور اس صورت حال کے تحت انسانی نظام حیات کو واقعی چیلنجز کا سامنا ہے۔
کنگ سلمان ہیومینٹیرین ایڈ اینڈ ریلیف سینٹر (کے ایس امدادی مرکز) کے نگران اعلیٰ ڈاکٹر عبداللہ الربیعہ کے ساتھ کچھ عرصہ قبل مصر میں ہونے والی ملاقات کے بارے میں فلیشر نے بتایا کہ ورلڈ فوڈ پروگرام سعودی امدادی مرکز کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے پر بہت خوش ہے۔
دونوں اداروں نے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت کنگ سلمان مرکز یوکرین میں ہمارے آپریشنز کے لیے ایک کروڑ ڈالر، فلسطین کے لیے 50 لاکھ ڈالر، یمن کے لیے ساڑھے 48 لاکھ ڈالر اور اور سوڈان و جنوبی سوڈان کے لیے 14 لاکھ ڈالر فراہم کرے گا۔
اس معاہدے کا مقصد یقیناً زندگیاں بچانا اور حاملہ خواتین و دودھ پلانے والی ماؤں اور دو سال سے کم عمر بچوں کو غذائی اشیاء فراہم کرنے پر خاص توجہ دینا ہے۔
کئی مہینوں سے اسرائیلی محاصرے میں رہنے والی غزہ کی آبادی کے لیے یہ اضافی امداد کسی حد تک بہتر ثابت ہو سکتی ہے تاہم دنیا نے بھوک میں اتنی تیزی سے اضافہ نہیں دیکھا۔
ڈبلیو ایف پی کی علاقائی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ چھ ماہ سے زائد عرصے سے اسرائیلی فوجی کارروائی اور غزہ میں امدادی سامان کی ترسیل پر رکاوٹ اور سخت پابندیوں نے غزہ کی آبادی کو قحط کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
فلیشر نے کہا اس سے قبل بھوک میں اتنی تیزی سے اضافہ میں نے بلکہ دنیا نے کبھی نہیں دیکھا، اب حالات یہ ہیں کہ 50 فیصد آبادی بھوک سے بلک رہی ہے۔
ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں جنگ سے قبل اعشاریہ آٹھ فیصد بچے غذائی قلت کا شکار تھے۔
اسرائیلی کارروائی کے صرف تین ماہ میں یہ تعداد بڑھ کر 15 فیصد ہو گئی جب کہ مزید دو ماہ بعد ایسے بچوں کی تعداد 30 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔
فلیشر نے بتایا ’ہمارا اندازہ تھا کہ غزہ اسرائیل تنازع لمبا چل سکتا ہے، اس لیے ہم نے اس بات کو یقینی بنایا کہ علاقے میں 22 لاکھ افراد کے لیے خوراک موجود ہو اور اس کی ترسیل کر سکیں۔‘
ورلڈ فوڈ پروگرام غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے لیکن متاثرین کی ضروریات کو پورا کرنے کے مطابق ٹرکوں کی تعداد انتہائی محدود ہے۔
جنگ سے قبل تقریباً 500 ٹرک علاقے میں داخل ہو رہے تھے، اب ایسے وقت میں جب ضرورت زیادہ ہے بمشکل 100 ٹرکوں کو داخلے کی اجازت ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے اسرائیل سے مزید کراسنگ پوائنٹس کھولنے کا مطالبہ کیا جس کے بعد اب ایرز کراسنگ(بیت حانون) کھولی گئی ہے اور امدادی ایجنسیوں کو غزہ کے شمال میں کمیونٹیز تک رسائی ملی ہے جہاں غذائی بحران ہے۔
گذشتہ ماہ اس راستے سے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد کے لیے کھانا لانے کا انتظام کیا گیا جو پورے مہینے کے لیے کافی نہیں لیکن یہ ایک آغاز ہے۔
جب علاقے میں امدادی ٹرک آتے ہیں تو لوگ ان پر کود پڑتے ہیں، پہلے خود کھاتے ہیں اور بچا ہوا سامان گھر والوں کے لیے لے جاتے ہیں، اس سے آپ تصور کر سکتے ہیں کہ وہ بھوک سے کس قدر نڈھال ہیں۔
ہمیں وہاں موجود لوگوں کو یہ یقین دلانے کی ضرورت ہے۔ خوراک روزانہ کی بنیاد پر آ رہی ہے۔ غذائی قلت سے پریشان نہ ہوں تاہم امداد بہت بڑے پیمانے پر برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ غزہ میں 22 لاکھ افراد ہیں جنہیں خوراک کی ضرورت ہے۔
علاقے میں موجود بیکریوں کو بھی بحال کرنا اور دوبارہ کھولنا ضروری ہے کیونکہ اگر یہ تنازع نہیں رکتا تو انسانی ہمدردی کے ادارے غزہ میں مکمل امداد برقرار نہیں رکھ سکیں گے۔
ڈبلیو ایف پی نے علاقے میں 16 بیکریاں دوبارہ کھولنے میں مدد کی ہے۔ شمال میں بسنے والے لوگوں نے طویل عرصے سے روٹی نہیں کھائی۔ اس لیے ہم بیکریوں کو گندم، آٹا، خمیر اور چینی کے ساتھ ایندھن بھی فراہم کر رہے ہیں اور وہاں موجود بیکریوں نے دوبارہ کام شروع کیا ہے۔