اسلام آباد (نیوز ڈیسک) اولیاء کاملین کی تعلیمات عصر حاضر کی ضرورت ہے مسلم فکر پر مادیت پرستی اورنوآبادیت کے اثرات کو مٹانے کے لیے مولانا رومیؒ ، حضرت سلطان باھوؒ اور دیگر صوفیاء کی تعلیمات کا پرچار ضروری ہے۔ صوفیاء کی تعلیمات کے مطابق انسان کو فساد کے لئے نہیں بلکہ امن کے لئے پیدا کیاگیا ہے ، صوفیاء کی فکر نے معاشرے پر، زبان و ادب پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ، رواداری انسان دوستی اور مذہبی ہم آہنگی وہ سارے نظریات ہیں جو صوفی اپنے معاشرے کو دیتا ہے اور اپنی ثقافت پر گہرے اور ان مٹ نقوش چھوڑتا ہے ۔ صوفی اپنے نظریات و کردار سے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتا ہے ۔ مولانارومیؒ و حضرت سلطان باھوؒ کےافکار نے اقبال جیسی شخصیت پیدا کی۔ صوفیاء کی شاعری و کلام صرف نظریات کا اظہار نہیں بلکہ تعلیم کا ذریعہ ہے ان کا کلام آفاقی ہے جو عوام و خواص کو یکساں طور پر اپنی جانب متوجہ کرتا ہے اور ان پر اپنے نقوش کو ثبت کرتا ہے ۔ صوفیاء کا کلام زندگی گزارنے کا نصب العین ہے ۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے “مولانا رومیؒ و حضرت سلطان باھوؒ انسان دوستی، امن و محبت اور رواداری کے پیامبر” کے عنوان سے مسلم انسٹیٹیوٹ ، یونس ایمرے انسٹیٹیوٹ اور ادارہ برائے فروغِ قومی زبان کے تعاون سے دوروزہ کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں کیا ۔ مقررین میں، ڈائریکٹر جنرل ادارہ فروغ قومی زبان ڈاکٹر سلیم مظہر، ممبر قومی اسمبلی صاحبزادہ امیر سلطان سفیر آذربائیجان خضر فراہادو ، چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد، ڈی جی پبلک لائبریریز ، کاشف منظور، وائس چانسلر کوہسار یونیورسٹی ڈاکٹر سید حبیب بخاری ، ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد اور چئیرمین مسلم انسٹیٹیوٹ صاحبزادہ سلطان احمد علی و دیگر شامل تھے۔ مقررین نے مزید کہا ہے مولانا رومیؒ اور حضرت سلطان باھوؒ ء مشاہدہ اور تجربہ کی بات کرتے ہیں اور کردار سے معاشرے کی تربیت کرتے ہیں ہر و ہ فکر جو انسان کو مقام انسانیت سے گرا نے کا باعث ہو وہ فکر اسلامی اور صوفیانہ نہیں۔ مولانا رومیؒ اور سلطان باھوؒ کی فکر کا پہلا پڑاؤاعجز و انکساری ہے ، یہی ادب زندگی بناتا ہے یہی معاشرے کی روح ہے معاشرہ اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ، یہ ادب ِ صوفیانہ معاشرے کی بنیاد کو درست سمت اور مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے ، جس کے باعث معاشرے میں ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے اور شدت پسندی میں کمی واقع ہوتی ہے ۔انسانی ابتداء سے آج تک ثقافتی تنوع اور تہذیبی رنگا رنگی کا فروغ اکثر باطنی کیفیات پر مبنی ہے ۔ اسی طرح اگر باطن کے ساتھ ساتھ ظاہر کی یک رنگی بھی میسر آ جائے تو یہ زمانہ آنے والے زمانوں سے انسانیت کے فروغ میں سبقت لے جائے گا ، اور اسی سبقت کا سامان مولانا رومی ؒاور سلطان باھوؒ کی تعلیمات میں فراوانی سے موجود ہے ضرورت ان پر عمل پیرا ہونے کی ہے ۔ دوروزہ کانفرنس کے اختتام پر مولانا رومیؒ اور سلطان باھوؒ کے صوفیانہ کلام کو نہایت ہی خوبصورت انداز میں گا کر پیش کیا گیا ، کانفرنس میں پاکستان کے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر کی جامعات سے مقررین نے شرکت کی ۔