اسلام آباد: پاکستان میں خوراک سے متعلق غیر متعدی امراض (NCDs) آسمان کو چھو رہے ہیں۔ 2100 سے زیادہ لوگ روزانہ پاکستان میں ان بیماریوں کی وجہ سے دنیا سے جا رہے ہیں بیماریاں اور تکالیف اس کے علاوہ ہیں۔ صرف زیابیطس کی وجہ سے 1100 کے قریب پاکستانی دنیا سے جا رہے ہیں۔ غیر صحت بخش غذا جیسے الٹرا پروسیسڈ فوڈز اورمیٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال موٹاپے اور بہت سی بیماریوں جیسے دل، ذیابیطس، فالج، گردوں اور کئی قسم کے کینسر کی بڑی وجہ ہے۔ میٹھے مشروبات غذا میں میٹھے کے استعمال کا سب سے بڑا زریعہ ہیں جن کے ایک چھوٹے گلاس میں 7سے8چمچ چینی موجود ہوتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے میٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس لگانے جیسے پالیسی اقدامات کرکے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کامیابی سے کم کیا ہے جس سے بیماریوں میں واضع کمی آئی۔ حکومت پاکستان بھی پاکستان میں بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے یہ پالیسی اقدامات کرے۔ اس سے نہ صرف بیماریوں کے بوجھ میں کمی آئے گی بلکہ حکومت کو اس سے زیادہ ریوینیو بھی ملے گا۔ حکومت اس ریوینو کو صحت عامہ کے پروگراموں پر خرچ کرے۔ یہ بات صحت کے ماہرین نے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے موئثر پالیسی اقدامات کے موٖضوع پر ہونے والے ایک پروگرام میں کئی گئی جس کا اہتمام پاکستان نیشنل ہارٹ ایسوسی ایشن نے اپنے کولیشن پارٹنرز کے ساتھ مل کر کیا۔تقریب میں شرکت کرنے والوں میں زیابیطس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل پروفیسر ڈاکٹر عبدالباسط، کنٹری کوآرڈینیٹر گلوبل ہیلتھ ایڈووکیسی انکیوبیٹر منور حسین، سینئر ایگزیکٹو وائس پریذیڈنٹ پناہ ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان، صدر نیشنل پریس کلب انور رضاء، جنرل سیکریٹری کڈنی پیشنٹس ویلفئیر آرگنائزیشن غلام عباس، سابقہ کمشنر انکم ٹیکس عبدلحفیظ، صحت کے مائرین، سول سوسائٹی اور میڈیا شامل تھے۔جنرل سیکرٹری پناہ جناب ثناء اللہ گھمن نے تقریب کی میزبانی کی۔
ڈاکٹر عبدلباسط نے کہا کہ پاکستان میں بالغ افراد میں زیابیطس کا تناسب دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ زیابیطس فیڈریشن کی 2021کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 3کروڑ 30ؒٓؒٓلاکھ لوگ زیابیطس کے ساتھ زندہ ہیں اور اگر کوئی فوری اقدام نہ کیا گیا تو 2045تک پاکستان میں زیابیطس کے ساتھ زندہ رہنے والے لوگوں کی تعداد 6کروڑ 20لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔ اس لیے حکومت کو جنگی بنیادوں پر اس مرض میں کمی کے لیے پالیسی اقدام کرنا ہوں گے۔
منور حسین نے کہا کہ غیر صحت بخش خوراک روزانہ ہزاروں پاکستانیوں کی جان لے رہی ہے۔ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ میٹھے مشروبات اور الٹرا پروسیسڈ مصنوعات کا استعمال کم کرنے سے اموات اور بیماریوں میں کمی آسکتی ہے اور کئی پاکستانیوں کی جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔ میٹھے مشروبات کے ایک چھوٹے گلاس میں 5 سے 7چمچ چینی ہوتی ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک نے بیماریوں کو کم کرنے کے لیے میٹھے مشروبات پر زیادہ ٹیکس عائد کیا۔ اس سے نہ صرف ان مشروبات کے استعمال میں کمی سے بیماریوں میں کمی آئی بلکہ حکومت کو اس سے اضافی ریوینو بھی ملا۔ حکومت پاکستان کو بھی دنیا کے تجربے سے سیکھتے ہوئے میٹھے مشروبات پر ٹیکسوں میں اضافہ کرنا چاہیے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی کو کلی یا جزوی طور پر صحت عامہ کے پروگراموں کے لیے مختص کر دینا چاہیے۔
کرنل ڈاکٹر شکیل احمد مرزا نے کہا کہ 2011 سے 2018 کے دوران 5 سال سے کم عمر بچوں میں موٹاپاپے کی شرح دوگنا ہو گئی ہے۔بچوں اور نوجوانوں میں غیر صحت بخش کھانوں کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال ہمارے نوجوانوں کی صحت کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔ ہمیں ان مضر صحت مشروبات میں کمی کے لیے فوری پالیسی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
انور رضا نے کہا کہ پناہ ایک بہت ہی اہم قومی کاز کے لیے کام کر رہا ہے اور معاشرے کے ہر باشعور شخص کو اس میں ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا پہلے بھی اس کاز میں ان کے ساتھ کھڑا تھا اور آئندہ بھی ہم پناہ کی آواز میں آواز ملا کر ان کا ساتھ دیں گے۔
ثناء اللہ گھمن نے کہا کہPANAH پچھلے 40 سالوں سے صحت عامہ کے بارے میں آگائی دے رہا ہے۔ ہم پالیسی ساز اداروں کے ساتھ مل کر ایسی پالیسیوں کے لیے بھی کام کر رہے ہیں تاکہ غیر صحت بخش کھانوں کے استعمال کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ پناہ کولیشن پر یقین رکھتا ہے اور آج ہم نے اپنے کولیشن پارٹنرز کو دعوت دی ہے کہ آئیں ہم مل کر بہت سی بیماریوں کی وجہ بننے والے میٹھے مشروبات کو کم کرنے کے لیے ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں اور حکومت سے درخواست کریں کہ میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھائیں تاکہ بیماریوں میں کمی آ سکے۔
دیگر مقررین نے بھی صحت مند غذا کو فروغ دینے اور مضر صحت خوراک جیسے میٹھے مشروبات کے استعمال کو کم کرنے کے لیے حکومت کی فوری توجہ کا مطالبہ کیا۔
آخرمیں ڈاکٹر عبدالقیوم اعوان کے پناہ کی طرف سے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے تمام کولیشن پارٹنرز کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اس اہم کاز کے لیے ہمارے ساتھ مل کر آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا ہمارا سب سے بڑا پارٹنر ہے جو ہماری آواز کو عام آدمی سے لیکر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا رہا ہے۔