تحریر ۔ خالد چوہدری
عوام کو صاف ستھرا اور معیاری کھانے پینے کی اشیاء کے کاروبار کو ریگولیٹ کرنے کے لئے دو سال قبل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے اسلام آباد فوڈ اتھارٹی قائم کی گئی ۔ جسے اسلام آباد کی تاجر برادری نے سراہا ۔ ایکٹ کے مطابق فوڈ اتھارٹی کا ایک ایڈمنسٹریٹو بورڈ ہوگا ۔ جس کی سربراہی چیف کمشنر آئی سی ٹی کرے گا۔ ممبران میں اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر – ڈپٹی کمشنر آئی سی ٹی ۔ فوڈ کے مینو فیکچرنگ کا کا نمائندہ – منسٹری کا نمائندہ – انڈسٹری کا نمائیندہ – اسلام آباد کی مارکیٹوں کا نمائندہ اس کے اراکین ہونگے ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ اتھارٹی کواڈینیٹر ہونگی- دو سال گزرنے کے باوجود بورڈ مکمل نہ ہو سکا ہے۔ صرف ڈپٹی کمشنر آئی سی ٹی عرفان میمن بورڈ میں فعال نمائندگی کر رہے ہیں اور ان کا رول اور رویہ ، بہت بہتر اور کوآپریٹو ہے ۔ اس کے علاوہ ایکٹ کے بعد رولز بنائے جانے تھے۔ لیکن ابھی تک رولز نہ بنائے جا سکے ہیں گذشتہ چھ ماہ کے دوران بورڈ کی کوئی میٹنگ ہی نہ ہوئی ہے۔ اسی دوران فوڈ اتھارٹی کی طرف سے کھانے پینے کی اشیاء کا کاروبار کرنے والوں کے لئے لائسنس بنوانے کے آرڈرز جاری کئے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی تاجر برادری سی ڈی اے آرڈیننس 1962 کے تحت ڈائریکٹوریٹ آف مونسیپل ایڈمنسٹریشن (ڈی ایم اے) کے ٹریڈ لائسنس بنوا رہے ہیں۔ ٹریڈ لائسینس بنوانے کے لئے ویکینیشن سرٹیفیکٹ حاصل کرنا ضروری ہے۔ اسلام آباد میں مختلف ادارے ٹریڈ لائیسنس بناتے ہیں جن میں ڈی ایم اے۔ فوڈ ڈیپارٹمنٹ – ٹورازم ڈیپارٹمنٹ ۔ پروفیشنل لائیسنس ۔اسلام آباد مارکیٹ کمیٹی ۔ اور اب فوڈ اتھارٹی نے نوٹس جاری کئے ہیں ۔ فوڈ اتھارٹی کا ایکٹ پنجاب فوڈ اتھارٹی کا کاپی کیا گیا ہے پنجاب ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے کہ ٹریڈ لائسنس ایک بزنس کے لئے صرف ایک اتھارٹی کا ضروری ہے۔ پاکستان کے قانون کے مطابق کوئی بھی ٹیکس نیا لگانے سے پہلے یا اس میں اضافہ کرنے سے قبل پبلک ہیرنگ کرنی ضروری ہے اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ضروری ہے ۔ فوڈ اتھارٹی کے لائیسنس فیس عائد کرنے سے قبل کوئی بھی قانونی کاروائی عمل میں نہ لائی گئ ہے – جبکہ آئی سی ٹی کا حصہ ہونے کی وجہ سے وفاقی کابینہ سے منظوری لینا ضروری ہے اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے فوڈ اتھارٹی کے قیام کے فوراً بعد چیمبر میں معلوماتی پروگرام کرائے جس میں فوڈ کا کاروبار کرنے والوں کی کثیر تعداد میں شریک ہوئی ۔ اور فوڈ اتھارٹی سے تعاون کیا ۔ لیکن نا معلوم وجوہات کی بنا پر فوڈ اتھارٹی کے گذشتہ چھ ماہ میں چیمبر کے صدر اور دیگر ممبران کو کسی میٹنگ میں مدعو ہی نہ کیا گیا جبکہ چیمبر کے صدر لائیس فیس نافذ کرنے کے
فیصلے سے بھی لا علم ہیں ۔ کوئی شک نہیں کہ اسلام آباد کے شہریوں کو صاف ستھرا اور سٹنڈرڈ کے مطابق اشیاء خورو نوش مہیا کرنا اور تاجروں کی ذمہ داری ہے اور فوڈ اتھارٹی سے تعاون ضروری ہے ۔ فوڈ اتھارٹی کے قیام میں اسلام آباد میں ایک جدید ٹیسٹنگ لیبارٹری کا قیام ہونا تھا۔ لیکن دو سال گزرنے کے باوجود ابھی تک لیبارٹری قائم نہ ہو سکی بلکہ NHA سے ایم او یو پر دستخط کئے گئے ہیں
جن کے اپنی کوئی کپیسٹی نہ بے ۔
پنجاب کی طرز پر اسلام آباد میں جدید لیبارٹری کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ حکومت اس کے لئے فوڈ اتھارٹی کو فنڈ مہیا کرے۔ فوڈ اتھارٹی میں موجود سپروائزر جو کہ چکن ایکسپرٹ ہیں اور پکوڑے اور سموسے چیک کر رہے ہیں اور فوڈ اتھارٹی کا زور صرف شہری علاقے میں چلتا ہے ۔ رمضان میں بند ریسٹورنٹ کو بھاری جرمانہ سمجھ سے
بالا تر ہے۔ جبکہ پکوڑے اور سموسے کا ٹھیہ لگانے والے جس کا کل اثاثہ چند ہزار ہے اسے بھی بھاری جرمانہ کیا جاتا ہے ۔ فوڈ اتھارٹی کو شہر کے مضافات جانا چاہیے اور کسی کے ذاتی انتقام کی خواہش کے مطابق ایکشن نہیں لینا چائیے ۔ وزیر داخلہ سید محسن نقوی اور چیف کمشنر آئی سی ٹی کیپٹن ریٹائرڈ انوار الحق صورتحال کا نوٹس لیں ۔ اور فوڈ اتھارٹی اسلام آباد کو بہتر فنکشنل اور فعال بنانے کے احکامات جاری کریں تاکہ شہریوں کو بہتر خوراک کی دستیابی یقینی بنائی جا سکے ۔