شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور مصطفیٰ کھوکھر نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کیلئے سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہی تین سیاسی رہنماؤں نے پہلے ’’ ری امیجننگ پاکستان‘‘ کے نام سے سیمینارز کا خیال پیش کیا تھا۔ مفتاح اسمٰعیل نے دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ فی الحال کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن اس معاملے پر سنجیدگی سے غور ہو رہا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ رواں سال جولائی میں انہوں نے ایک عوامی رائے کے حصول کیلئے ایک سروے کرایا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مقبولیت میں عمران خان سب سے اوپر ہیں۔ جو کچھ شاہد عباسی نے نون لیگ میں اپنے سیاسی مستقبل اور ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت کے حوالے سے کہا وہ ان تین لوگوں کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے ذریعے وہ حالات کا جائزہ لیتے ہوئے حتمی فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
شاہد، مفتاح اور مصطفیٰ مختلف لوگوں کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے پر بحث و مباحثہ کر رہے ہیں اور ساتھ ہی میڈیا اور سوشل میڈیا پر بحث و مباحثے کی حوصلہ افزائی بھی کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ کیا نئی جماعت قائم کی جا سکتی ہے یا نہیں۔ تینوں میں سے مصطفیٰ کھوکھر نئی پارٹی لانے کیلئے زیادہ آرزو مند ہیں جبکہ باقی دو لوگ ابھی واضح طور پر فیصلہ نہیں کر پائے کہ پارٹی قائم کی جائے یا نہیں۔
اس حوالے سے مفتاح اسمٰعیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے مختلف سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں کی مقبولیت جانچنے کیلئے سروے کرایا تھا اور سروے رپورٹ کے نتائج پڑھ کر ہی وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت ہے۔ شاہد عباسی، مفتاح اسمٰعیل اور مصطفیٰ کھوکھر کا خیال ہے کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد، جو فی الوقت نون لیگ کو مسترد کرنے کی وجہ سے عمران خان کی طرف مائل نظر آتی ہے، کو نئی سیاسی جماعت کی طرف راغب کیا جا سکتا ہے کیونکہ عمران خان کے کٹر حامی اور نواز شریف کے کٹر حامی کسی دوسری سیاسی جماعت کو ووٹ نہیں دیں گے۔
9؍ مئی کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کیلئے پیدا ہونے والی مشکل صورتحال کے تناظر میں خیال کیا جاتا ہے کہ نئی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے ووٹروں کی ایک نمایاں تعداد (جن میں کٹر حامی شامل نہیں) کو اپنی جانب راغب کر سکتی ہے، کیونکہ یہ لوگ پنجاب میں نون لیگ یا کسی دوسری جماعت کو ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ تین لوگوں میں سے مصطفیٰ نواز کھوکھر وہ شخص ہیں جنہوں نے طاقتور حلقوں پر تنقید کی تھی جس پر ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد مصطفیٰ نواز کھوکھر نے اپنی جماعت سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔ مفتاح اسمٰعیل کے ساتھ نون لیگ کی اعلیٰ قیادت نے سرد مہری کا اظہار کیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنے اقتصادی اقدامات کا دفاع کر رہے تھے اور یہ اقدامات اسحاق ڈار کی پالیسی سے مختلف تھے۔ مفتاح نے بھی وزیر خزانہ کی حیثیت سے اسحاق ڈار کی پالیسیوں کی مخالفت کی تھی اور دلیل دی تھی کہ جب وہ وزیر خزانہ تھے اس وقت اسحاق ڈار نے بھی ان پر تنقید کی تھی۔ تاہم، اسحاق ڈار پر تنقید کی وجہ سے شریف برادران نے انہیں اجنبی کر دیا۔ شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ چند ماہ کے دوران نون لیگ کی اعلیٰ قیادت سے فاصلہ اختیار کرنا شروع کر دیا ہے۔
اگرچہ پارٹی قیادت انہیں دور ہوتا نہیں دیکھنا چاہتی لیکن شاہد عباسی نون لیگ سمیت ملک کی تین سرکردہ سیاسی جماعتوں کے طرز سیاست سے مطمئن نہیں ہیں۔ شاہد عباسی آئندہ الیکشن کیلئے نون لیگ کے ٹکٹ کے حصول کے معاملے میں بھی دلچسپی ظاہر نہیں کر رہے جبکہ مریم نواز کو پارٹی کا سینئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر لگائے جانے کے بعد سے وہ سینئر نائب صدر کی حیثیت سے کام کرنے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔ نواز شریف کی ہدایت پر مریم نواز نے شاہد عباسی سے ان کے گھر پر ملاقات کی تھی تاکہ انہیں عہدہ نہ چھوڑنے پر قائل کیا جا سکے لیکن شاہد عباسی نے شائستہ انداز سے انکار کر دیا۔ اب لگتا ہے کہ وہ کسی بھی وقت نون لیگ چھوڑنے کا اعلان کر دیں گے۔
تحریر:انصار عباسی